آپریشن زر پہازگ ۔ امین بلوچ

168

آپریشن زر پہازگ
تحریر: امین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ سر زمین پر جب سے قبضہ ہوا ہے، بلوچ نے خاموشی کے بجائے مزاحمت کا راستہ اپنایا ہے، یہ قوم کمزور حالت میں اپنے سر زمین کی دفاع کے لیے نکلی، قابض کے خلاف جد وجہد کی، جب سے بلوچستان کی ساحل و وسائل کی لوٹ کھسوٹ کو تیز کردیا گیا ہے، اس لوٹ مار میں دوسرے عالمی طاقتوں نے بھی حصہ لینا شروع کیا تو بلوچ قوم کو بخوبی اندازہ ہوا کہ پاکستان اب وسائل اور ساحل نہیں بلکہ ہماری شناخت اور تاریخ سب کچھ مٹانا چاہتا ہے۔ وہ ہمیں ترقی کے نام پر غلام سے غلام تر بنانا چاہتا ہے۔ وہ ہمارے وسائل کو اپنے مفادات کی خاطر عالمی لٹیروں کے حوالے کرنا چاہتا ہے۔ سیندک ہو یا ریکوڈیک، گودار کی بندرگاہ ہو ہماری استحصال مختلف اشکال میں شروع کی گئی ہے۔ ہر جگہ پر پروجیکٹ کی سیکورٹی کےنام پر مقامی لوگوں کو بے دخل کرنا شروع کردیا گیا ہے۔ مقامی لوگوں کے زمینوں کو زبردستی قبضہ کیا گیا ہے۔ اس کے روزگار کے دروازے بند کردئیے گئے۔ اپنے حق پر احتجاج کرنے والوں کو گرفتار کرکے ٹارچر سیلوں میں ڈال دیا گیا بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں گرائی گئیں۔ کئی نوجوانوں کو سالوں سال گار بیگواہ کردیا گیا۔

اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجاتی، بلوچ نوجوانوں نے مزاحمت کی راہ اپنا لی ہر طرف سے مزاحمت کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ مزاحمت کی وجہ سے قابض ریاست اور اس کے شریک کاروں نے تحریک اور مزاحمت کو کچلنے کے لیے مزید بے رحمی سے کام لینا شروع کیا۔ دوسری طرف بلوچ نوجوانوں نے ایسے طاقتوروں کو روکنے کے لیے آخری حد تک جانے کے لیے عہد کیا۔ بلوچ قوم نے چین اور پاکستان کو روکنے کے لیے فدائی حملوں کا باقاعدہ آغاز کردیا۔

فدائی حملوں کے علاوہ بلوچ قوم کے لیئے چین جیسے بدمست ہاتھی کو روکنا ناممکن تھا اس لیے گوادر پر سی پیک کے نام پر قبضہ جمانے کو روکنے کے لیے آپریشن زرپہازگ کا آغاز کیا گیا تاکہ چین کی قدموں کو روک سکیں۔

پہلی آپریشن زر پہازگ بی ایل اے کی چوتھا بڑا فدائی حملہ تھا۔ جسے گوادر کے پرل کانٹیننٹل ہوٹل میں سر انجام دیا گیا۔ اس سے پہلے تین دوسرے مختلف جگہوں پر دشمن اور اس کے مفادات کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ جس میں پہلا حملہ دوہزار بارہ میں ریاستی ایجنٹ شفیق مینگل کے ڈیتھ سکواڈ کے ایک اڈے پر کیا گیا جہاں شفیق مینگل اپنے دوسرے غداروں کے ساتھ موجود تھا جسے شہید بازخان مری عرف درویش نے سر انجام دی۔ درویش نے بارود سے بھری اپنی گاڑی شفیق مینگل کے ٹھکانے سے ٹکرائی جس سے کافی غدار ہلاک اور زخمی ہوئے۔ دوسرا حملہ دالبندین کے مقام پر جنرل استاد اسلم بلوچ کے بڑے فرزند شہید ریحان نے سر انجام دی۔ چینوں کے قافلے میں شامل ایک بس کو نشانہ بنایا گیا۔ تیسرا حملہ تین فدائی شہید بلال، شہید وسیم، شہید اضل خان نے کراچی میں چینی کونسلیٹ پر سر انجام دی۔ 11_5-2019کےشام پرل کانٹیننٹل ہوٹل پر بی ایل اے کا چوتھی حملہ تھا اور آپریشن زر پہازگ کا پہلا حملہ تھا۔ جسے شہید کامریڈ مہراب شہید، منصب شہید، کچکول شہید، کامریڈ حمل نے سر انجام دیا، انٹلیجنس معلومات کے مطابق حملے کے وقت اس ہوٹل میں بیرونی سرمایہ کاروں کی ایک ٹیم ٹھہری ہوئی تھی۔

عصر کے وقت بلوچ فدائیوں نے چھوٹے ہتھیاروں سے لیس ہوکر ہوٹل میں داخل ہوئے تین گھنٹے لڑائی کے بعد انھوں نے آخری گولی اپنے نام کر لیا اور جام شہادت نوش کی۔ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ حملہ عالمی میڈیا کے شہہ سرخی میں رہا دوسری طرف پاکستانی میڈیا کے اندر یہ خبر جگہ نہ پا سکا۔ پاکستان نے اسے دہشت گردی کے واقعہ قرار دیا۔ بی ایل اے نے سوشل میڈیا کے ذریعے حملے کی ذمہ داری قبول کی اور دنیا کو تنبیہ کی کہ بلوچ قوم کی رضا مندی کے بغیر بلوچ سرزمین پر سرمایہ کاری کرنا کسی صورت بھی قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ پاکستانی اسمبلی میں بیٹھے ہوئے لوگ بلوچ قوم کے نمائندہ نہیں اسے کسی قسم کا واک او اختیار نہیں ہے کہ وہ ریاست پاکستان کے ایما پر کوئی سمجھوتا کریں بلوچ قوم اپنے سر زمین کے دفاع کرنے کا حق رکھتا ہے۔ البتہ اس حملے نے بلوچ قومی جدوجہد پر کافی اثرات مرتب کیے۔

بلوچ نوجوانوں کے اندر ایک نیا جذبہ پیدا ہوا۔ وہ بے غرض ہوکر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے لگے۔ انہیں کوئی جنت یا اگلی جہاں کی کوئی دوسری خواہش پیش نہیں کی گئی تھی۔ وہ خود اپنی سرزمین سے اتنے عشق کی انتہا پر پہنچ چکے تھے کہ وہ اپنی قوم سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ انکے یہ قدم خود اس چیز کو ظاہر کرتی ہیں کہ بلوچ نوجوان اپنے سرزمین کی دفاع کے لیے اس کی کتنی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ اپنی تمام خوشیوں کو قربان کرنے سے گریز نہیں کرتے بلکہ جوش و جذبے کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں۔

آپریشن زر پہازگ کا دوسرا حملہ

بیس اگست دو ہزار اکیس کے دن شہید سربلند عرف عمرجان نے اپنے جسم پر بارود باندھ کر دشمن کے قافلے کو نشانہ بنایا۔ جہاں سے چین کے قافلے کو گوادر شہر کے قریب بلوچ وارڈ سےگزرنا تھا۔ شہید عمرجان کے فدائی حملے کے وقت خطہ تبدیلی کے لپیٹ میں تھا۔ یو ایس افواج افغانستان سے نکل رہیں تھی۔ کابل مکمل طور پر افغان طالبان کے کنٹرول میں جاچکا تھا۔ اشرف غنی کی حکومت کا تختہ الٹ چکا تھا۔ غیر ملکی افواج کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے میں محصور ہو کر رہ گئے تھے۔ ائیرپورٹ کے اندر غیر ملکی افواج اور دروازے پر افغان طالبان کے جنگجو موجود تھے۔ افغانستان میں ہنگامی صورتحال تھا۔ یہ حملہ صرف اففانستان کے تختہ الٹنے کے صرف چار دن بعد کیا گیا۔ خود سوچیں کہ حالات کیسے تھے اس وقت۔ بلوچ قیادت خود سر گرداں تھا کیونکہ ایک ہمسایہ ملک میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہوچکی تھی۔ وہاں کے لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ اس دوران بلوچستان میں گوادر کے مقام پر چینی قافلے پر حملہ کرنا مشکل کام تھا لیکن بی ایل اے قیادت نے اسے بے خوف و خطر سر انجام دی۔ اس کی ایک اپنی اہمیت تھی، پاکستان افغانستان کی تبدیلی کو اپنا کامیابی سمجھ رہا تھا اور دنیا کو بتا رہا تھا کہ خطے میں اب کوئی جھگڑا نہیں ہوگا۔ مسئلے کا جڑ افغان جمہوری حکومت تھا۔ اب مذہبی حکومت ہماری کنٹرول میں ہے۔ ہمارے مخالف اب افغانستان میں بیٹھ کر کسی سرمایہ کار کو نقصان نہیں پہنچا سکتے البتہ جن ممالک کو سرمایہ کاری کرنا ہے اور بلوچستان کے وسائل کو لوٹ مار کرنے میں شریک ہونا ہے۔ اسے سیکورٹی دی جائے گی۔ اس دوران اسطرح کے حملے کرنا اور دنیا کو پیغام دینا تھا کہ حالات جیسے بھی ہوں بلوچ سر زمین پر بلوچ قوم کے مرضی کے بغیر کوئی سمجھوتا اور سرمایہ کاری کامیاب نہیں ہوگی۔ کوئی غیر ملکی اپنے آپ کو بلوچستان میں محفوظ نہ سمجھے، ہم اپنے سرزمین اور قوم کی خاطر ہر وقت اور ہرجگہ حملے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کوئی بھی ملک پاکستان کے بہکاوے میں نہیں آئے اپنا سرمایہ بلوچستان میں نہ لگائیں۔ اگر ہم چین جیسے معاشی سپر پاور کے ساتھ نبردآزما ہوسکتے ہیں تو دنیا کے چھوٹے اور کمزور ممالک بھی یہاں پر قدم نہیں جما سکیں گے۔ دوسری طرف بلوچ قوم اور نوجوانوں کو بھی ایک طرح کے پیغام دیا گیا کہ حالات جیسے بھی ہوں ہمیں اپنے سر زمین پر رہنا ہے اور ہر آنے والے دشمن اور قبضہ گیر کو اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دینا ہے۔ اس ملک اور قوم کا دفاع کرنا ہے اگر خطہ تبدیلی کی لپیٹ میں ہے تو ہم خود بھی اسی خطے کے باشندے ہیں۔ ہمارا علحیدہ شناخت اور زمین ہے ہم بھی کسی کو اپنے ساحل و وسائل کی لوٹ مار کی اجازت نہیں دے سکتے۔ اٹھیں اور ملک کی دفاع میں کردار ادا کریں۔

مایوسی کی عالم میں اس طرح کا فیصلہ کرنا اور اس طرح کا قدم اٹھانا کمزور حالت میں دنیا کے طاقتور ملکوں اور قوموں کے صف میں کھڑا ہو جانے کے مترادف تھا تاکہ دنیا ہمیں ایک قوم کی نظر سے دیکھیں۔ یہ فیصلہ کرنا بی ایل اے کی قیادت کی ایک بہادری اور جرت کا مظاہرہ تھا اور ثابت کرنا تھا کہ ہم بلوچ اپنی قوم اور ملک کی دفاع کی خاطر ہر طرح کی قربانی دے سکتے ہیں۔

شہید سربلند اپنے قوم اور سر زمین سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔ شہید سربلند دشمن کی تاک میں بیٹھا تھا تاکہ دشمن پر قہر بن کر ٹوٹ پڑے۔ دوسری طرف وہ قریب کھیلنے والے اپنی قوم کے بچوں کو حملے کے زد میں آنے سے پریشان تھا۔ آخر شہید سربلند آگے بڑھتے بچوں کو علاقے سے چلے جانے کے لیے کہہ دیتا ہے۔ اس کے بعد بچے وہاں سے چلے جاتے ہیں۔ شہید سربلند دشمن پر حملہ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

آپریشن زر پہازگ کا تیسرا حملہ

اسے 13 اگست دو ہزار تییس کے دن دو نوجوان شہید نوید اور شہید مقبول نے گوادر میں جوڈیشل کمپلیکس کے قریب چینی کے قافلے پر حملہ کرکے کیا، جو کہ ایک کانوائے کی شکل میں گزر رہا تھا۔ وہاں بے تحاشہ سیکورٹی فورسز موجود تھے۔ گلی گلی میں ائی ایس ائی کے سادہ وردی کے لوگ پیدل گشت کرتے علاقے کے نگرانی کررہے تھے لیکن بلوچ فدائی اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ حملہ کرنے کا مقصد دشمن اور اس کے شریک کاروں کو یہ بتانا تھا کہ ہم خاموش تماشائی نہیں بلکہ اپنے سر زمین کی دفاع کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ 13اگست سے پہلےایک دفعہ چینی قافلے پر حملہ کرنے کے لیے شہید نوید اور شہید مقبول بلوچ عرف قیوم بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک کانوائے کے آنے کے ساتھ اسکول کا ایک بس بچوں کو اتارنے کے لئے رک گیا۔ اس طرح شہید نوید نے اپنے حملے کو ملتوی کردیا اور واپس اپنے ٹھکانے پر چلے گئے۔ اس جگہ کا چناؤ اوردشمن کی ریکی شہید نوید نے خود کی تھی۔ دشمن اس وقت پورے بلوچستان میں خاص طور پر مکران میں آپریشنوں اور ڈرون طیاروں کے حملوں کے ذریعے بلوچ تحریک کو کچلنے کے لیے سر توڑ کوشش کررہا تھا۔ اس وقت بلوچ مزاحمت کاروں پر ڈورن کے ذریعے حملے کیے جارہے تھے۔ بلوچ جنگجو نقصان اٹھا رہے تھے۔ دوسری طرف وہ اپنے پالے ہوئے ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے بلوچ تحریک کو روکنے کی بھی کوشش کررہا تھا۔ اس لیے بلوچ نوجوانوں کو ایک طرح کی مایوسی کی کیفیت تھی کہ کس سے لڑا جائے۔ ریاست سے اسکی ڈرون سے اس کی ڈیتھ اسکواڈ سے۔ بہرحال بی ایل اے کی قیادت کا یہ فیصلہ کرنا اور اس آپریشن کو سر انجام دینا، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بی ایل اے کی قیادت اپنے قوم کو مایوسی کی اس دلدل سے نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اپنے قوم کو مایوس ہونے نہیں دیتا۔ وہ پوری طرح اپنے ملک کے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور وہ مسلسل اپنے ملک بلوچستان میں جاری دفاعی جنگ کی بھرپور تیاری کر رہا ہے اور وہ خاموش نہیں ہے۔ قوم کے امیدوں اور توقع کے مطابق، اپنے قوم کے اندر رہ کر جنگ لڑنے کی کوشش کررہا ہے۔

اس سے پہلے پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت دنیا کو قائل کرنے کی کوشش کررہا تھا کہ وہ آئیں اور بلوچستان میں سرمایہ کاری کریں۔ پاکستان، ماحول کو ساز گار ثابت کرنے کی کوشش کررہا تھا، دوسری طرف وہ اندرونی خلفشاری اور اقتصادی بحرانوں کے زد میں تھا۔ وہ کوشش کررہا تھا کہ کسی نہ کسی طرح عرب ممالک کو اس لوٹ مار میں شریک کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور اپنی گری ہوئی معیشت کو سہارا دینے میں کامیاب ہو جائیں لیکن بلوچ قیادت اس کے مذموم کوشش کو سمجھ سکا۔ اسے ناکام کرنے اور سبوتاژ کرنے میں کامیاب ہوا۔ عرب ملکوں نے اپنے قدم وقتی طور پر روک لیے امید ہے کہ وہ بلوچستان کے مسئلے کو سمجھ سکیں گے اور اپنے دولت کو پاکستان کے کہنے پر جلتی ہوئی بلوچستان کے آگ میں نہیں پھینکیں گے۔ وہ اپنی سرمایہ کو بلوچستان کے سمندر کی لہروں میں ڈوبنے نہیں دیں گے۔

آپریشن زر پہازگ کا چوتھا حملہ

بیس مارچ دو ہزار چوبیس کو گوادر شہر میں ایم ائی اور ائی ایس ائی کے دفاتر میں آٹھ بلوچ نوجوان شہید شوکت کنگوو کی قیادت میں داخل ہوئے۔ جس میں شہید کمانڈر شوکت شہید، ریاض شہید، بابر ناصر شہید، کامریڈ خدا دوست شہید، مہروان شہید کامریڈ سوالی، شہید کریم جان، شہید مسلم مہر نے سر انجام دی۔ یہ تمام نوجوان تعلیم یافتہ تھے اور وہ گزشتہ کئی سالوں سے بی ایل اے کے پلیٹ فارم پر ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے۔ اس آپریشن سے پہلے چین اور پاکستان کی حکومتیں سی پیک نام کے استحصالی پروگرام کے دوسرے فیز کی بارے میں میٹنگز کر رہے تھے۔ پاکستان مسلسل چین اور دوسرے ممالک کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا تھا کہ بلوچستان میں آپ کو کوئی خطرہ پیش نہیں ہوگا۔ آپ کی اینجینرز کی سیکورٹی اور تحفظ کی جائے گی۔ اس کی حفاظت کے لیے پورا ایک ڈویژن فورس کو تعینات کردیا گیا۔ ائی ایس ائی اور ایم ائی کے ہیڈکوارٹرز بنائے گئے۔

ائی ایس ائی اور ایم ائی پاکستان کے دو انتہائی اہم طاقتور ادارے ہیں، پاکستانی لوگ ان اداروں کے سامنے بے بس ہیں۔ پورے ملک کا کرتا دھرتا یہ دو ادارے ہیں جیسے چاہیں کر سکتے ہیں۔ پاکستانی جمہوری نظام کو بگاڑیں یا اسے بنائیں یہی ادارے کسی کو گرفتارکریں یا کسی کو غائب کر دیں وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتے البتہ انھوں نے بلوچستان میں بھی یہی طریقہ اپنایا ہوا۔ لیکن بلوچ قومی فوج بی ایل اے کی قیادت اور کارکنوں نے اسے روکنے کے لیے کمر باندھ لی۔ دنیا کو دیکھانے کے لیے کہ پاکستانی ادارے خود محفوظ نہیں ہیں تو پھر غیر ملکی سرمایہ کار کہاں محفوظ ہونگے۔ جس وقت شہید شوکت مکران میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنے قربان ہونے پر رقص کر رہا تھا وہ دھول و چاپ کے ساتھ گوادر کے ساحل کا نظارہ کررہا تھا۔ وہ نیل زر سے وعدہ کررہا تھا کہ حالات جیسے بھی ہوں دشمن جتنا بھی طاقتور ہو وہ اپنے آپ کو جیسے بھی ہتھیاروں سے لیس کرے، ہم آپ کی حفاظت میں انتہائی آخری حد تک جائیں گے۔ ہمیں اپنی زندگیوں سے زیادہ آپ کی وقار اور عزت بہت عزیز ہے۔ ہماری زندگیاں ہمارے خوبصورت ساحل کے آگے کچھ نہیں ہیں۔ جو ریاست اپنی پاکستانی لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا وہ بے وس بلوچ اور ماہی گیروں کی کیا سنے گا۔ یہ بدمست ہاتھی اپنی قبضہ گیریت کو برقرار رکھنے کے لیے ہر چیز کو روند ڈالتے ہیں۔ وہ غریب ماہی گیروں کو درمیان آب شوٹ کرتے ہیں۔ اس کی چھوٹی کشتیوں کو جلا دیتے ہیں۔ اس کے جال وغیرہ کو چھین لیتے ہیں۔ بے بس ماہی گیر آنسو بہاتے ہوئے چپ چاپ چلے جاتے ہیں۔ اگر کوئی اسے روکنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے منظر عام سے غائب کر دیتے ہیں۔ اس نے ساحلی لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ وہ ہر روز غیر ملکیوں کے سیکورٹی کے نام پر لوگوں کی تذلیل کرتے ہیں۔ انھیں بے عزت کرتے ہیں۔ انھیں اپنے ہی زمین سے بے دخل کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کی روزی روٹی کمانے کے ذریعے ایک ایک چھوٹی کشتی سے محروم کر دیتے ہیں۔ انھوں نے غیر ملکی ماہی گیروں کے بڑے بڑے ٹرالر کو بلوچ زر پر ماہی گیری کے لیے جمع کیا ہے، جو روزانہ گہرے سمندر کا صفایا کرنے میں لگے ہوئے تھے اور مقامی ماہی گیر دو وقت کی روٹی کے لیے ترس رہے تھے۔ انھیں گہرے سمندر میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ یہ سب ائی ایس ائی اور ایم ائی کے کہنے پر کیے جا رہے تھے، تو اس لیے بلوچ قوم کے نوجوانوں نے اسے سبق سکھانے کے لئے بندوقوں سے لیس ہوکر ائی ایس ائی کی دفاتر میں داخل ہوئے دشمن پر قہر بن کر ٹوٹ پڑے۔ تقریباً مسلسل تین گھنٹے جاری جنگ میں انھوں نے دشمن کو دھول چٹائی اور اخری گولی کا فلسفہ اپنا کر جام شہادت نوش کیا۔

آپریشن زر پہازگ کا پانچواں حملہ

پچیس مارچ دو ہزار چوبیس کو تربیت کے نیول بیس پی ایس صدیق پر حملہ کردیا گیا۔ اس حملے کو کمانڈ شہید انیس کر رہے تھے۔ اس کے ساتھ دیگر تین فدائی ساتھی بھی جنگ کا حصہ تھے۔ جس میں شہید ایوب عظیم عرف انیس شہید کامریڈ خلیف شہید، واجداد شہید اور مراد حاصل شامل تھے۔ آپریشن نیول بیس بلوچستان میں پہلا بڑا سمندری فورس کا ہیڈکوارٹر ہے۔ جس کو پاکستان کی سمندری فورس نیوی کنٹرول کرتا ہے۔ اس میں پاکستانی ایر فورس کے جنگی جیٹ اور ڈرون طیارے ھیلی کاپٹر اڑان بھرتے ہیں اور بلوچ نسل کشی میں شامل ہوتے ہیں۔ جب مکران میں ڈرون طیاروں کے حملوں کا نہ روکنے والا سلسلہ شروع ہوا تو ڈرون طیارے یہاں سے پرواز کرتے اور بلوچ سرمچاروں پر حملے کرتے ہیں۔ یہاں سے پورے مکران کی نگرانی کرتے ہیں۔ نیول بیس کی اپنی اہمیت ہے وہ بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر تربت میں واقع ہے اور ہمسایہ ملک ایران کو روکنے کے لیے چنا گیا ہے۔ اسے نیوی کے کنٹرول میں دیا گیا۔ یہ پاکستان نیوی کے کنٹرول میں ہے۔ پاکستان یہاں سے سمندر کی نگرانی کرتا ہے یہاں سے سب کچھ کنٹرول کیا جاتا ہے۔ اس ایئرپورٹ پر حملہ کرنا اور اسے بی ایل اے کی طرف سے ٹارگٹ چننا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایئرپورٹ ہرملک کے انتہائی اہم جگہ ہوتے ہیں جب ملک کے ائیرپورٹ محفوظ نہیں ہونگے تو ملک کسی بھی جگہ محفوظ نہیں رہتا۔ اس لیے سپر پاور کے درمیان جب لڑائی چھڑ جاتی ہے، سب سے پہلے ائیرپورٹوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جس سے فضائی حملوں کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ اس طرح بلوچ لبریشن آرمی کا نیول ایئربیس پی ایس صدیق کو ٹارگٹ کرنے کا مقصد بھی یہی تھا تاکہ دشمن کے طیارے محفوظ نہیں ہوں۔ جسے محفوظ سجمھ کر بیٹھا ہے۔ دوسری اہمیت تربت شہر کی تھی۔ جو بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر اور مکران کا سب سے بڑا شہر ہونے کا اعزاز رکھتا ہے۔ یہاں پر ریاست کے بڑے بڑے ایجنٹ اور ڈیتھ اسکواڈ کے کارندے بلوچ قومی تحریک کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ جو نہتے بلوچوں کے اغوا اور انھیں ٹارچر سیلوں میں بند کرنے کا قابض ریاست پاکستان کے ساتھ دیتے ہیں۔ یہی لوگ بلوچ نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشوں کو پھنکنے میں ملوث ہیں۔ انھیں یہ پیغام دینا ہے کہ مظلوم بلوچ قوم لاوارث نہیں ہے، جسے پاکستانی ریاست دن بدن اپنی وحشت کا نشانہ بنائے۔ بلوچ نوجوان اپنے قوم کے اوپر ہر طرح ظلم کے خلاف قدم اٹھانے اور بدلہ لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، نوجوانوں کو پیغام دینا تھا آپ بزدل ریاست پاکستان کے ظلم و جبر سہنے کے بجائے آواز اٹھائیں اس کے خلاف میدان میں نکلیں، مزاحمت کا راستہ اختیار کریں، یہی آپ کی بقا میں ہے۔ قابض ریاست پاکستان صرف بندوق کی زبان سمجھتا ہے۔

بلوچ لبریشن آرمی کا یہی آخری حملہ نہیں ہے، وہ اپنی قوم اور سرزمین کی آزادی تک بین الاقوامی قانون کے دائرے میں رہ کر ریاست پاکستان سے آخری حد تک لڑ سکتا ہے، یہی شہید ایوب عظیم، شہیدکامریڈ خلیف، شہید واجداد، شہید مراد حاصل کا مقصد تھا جسے وہ آخری گولی تک لڑتے رہے اور جام شہادت نوش کر کے وطن کے لیئے فنا ہو گئے۔