بیاد ء شہدائے 6 مارچ بولان
تحریر : کامریڈ سنگت بولانی
دی بلوچستان پوسٹ : کالم
سال میں 6 مارچ کا دن جب بھی آتا ہے، ان چاروں سنگتوں کے مسکراتے ہوئے چہرے ہمارے سامنے آجاتے ہیں جنہوں نے ہمارے آنے والے آزاد کل کیلئے اپنے آج کو قربان کردیا۔
آج رات کو حسبِ معمول بی بی سی سننے کے بعد جب ہم سارے دوستوں نے گفتگو شروع کی تو میں نے دوستوں سے کہا کہ کل 6 مارچ ہے تو کیوں نہ ان عظیم سنگتوں کے بارے مجلس ہو، جنہوں نے 6 مارچ کے دن قربانی دیکر ثابت قدم ہوئے۔ ہر ایک سنگت نے شہدائے 6 مارچ کے بارے میں اپنے یاداشت اور واقعات سنائے، ان یاداشت میں انکے وہ تجربات تھے، جو انہوں نے ان شہید دوستوں کے ساتھ وقت گذارہ اور انہیں کیسے پایا، میں یہاں ان شہداء سے وابسطہ اپنی یاداشتیں قلمبند کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔
سنگت امتیاز زہری عرف دلوش:۔
وہ ایک سچا انقلابی تھا۔ کم گو، سانولا رنگ، محب وطنی سے لبریز دلوش ایک انمول انسان تھا۔ سنگت سے ملاقات ناگاہو کے محاز پہ ہوا، جب میں شہر سے پہاڑوں کی جانب ناگاہو پہنچا۔ جب کبھی، سنگت کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملتا، تو سوالوں کے انبار سامنے رکھتا اور میں ان سوالات پہ غور کرکے کچھ کے جواب دے پاتا اور کچھ کے بارے خاموشی اختیار کرتا۔
وہ زیادہ تر موجودہ حالات بارے بحث مباحثہ کرتا دکھتا، موسیقی سے لگاو تھا، وہ ہر وقت براہوئی گلوکار عبید کو سنا کرتا تھا اور ہم اسے عبید کے گانے سننے پر اکثر تنگ کیا کرتے تھے۔ مجھے دس دن کےلیئے کھانے کا لنگری بنایا گیا۔ میرا پہلا دن تھا لنگری کا، سنگت نے دور سے دیکھا تو میری طرف آنے لگا۔
آج کے کھانے میں کیا بنا رہے ہو؟ سنگت نے مسکراتے ہوئے پوچھا
یار کدو بنا رہا ہوں لیکن مجھے معلوم نہیں کہ اسے پکانے کا طریقہ کیا ہے؟
میں نے جواب دیا ۔
سنگت ایسا کرو کہ کدو میں ایک جگ پانی ڈال کر آگ پہ رکھ دو ۔ دلوش نے ہنستے ہوئے جواب دیا ۔
دو گھنٹے بعد ڈیوٹی پر جانے والے ایک سنگت نے آکر پوچھنے لگا کہ کھانا تیار ہوگیا یا نہیں ۔
نہیں یار میں نے کدو میں ایک جگ پانی ڈال کر رکھ دیا ہے ابھی تک پانی زیادہ ہے۔ میں نے جواب دیا ۔
او سنگت کدو میں اتنا پانی کون ڈالتا ہے؟ سنگت نے قہقہہ لگا کر پوچھا ۔
دلوش نے کہا تھا کہ کدو میں ایک جگ پانی ڈال کر رکھ دو جلدی تیار ہو جائیگا ۔
میں آہستہ سے جواب دیا ۔
ہاہاہا دلوش نے کالج کے زمانے کو یاد کرکے تمہیں بے وقوف بنایا، اب کوشش کرو سارا پانی نکال کر کدو کو تیل میں پکانے دو۔ سنگت نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔
یہ واقعہ جب بھی یاد آتا ہے، تو میں بہت ہنستا ہوں کہ وہ بھی کیا لمحے تھے جو پھر کھبی لوٹ کر نہیں آنے والے۔ کچھ دنوں بعد ہم بولان کے لیئے روانہ ہوگئے۔ ہم نے اس پوری مسافت میں دلوش کو کامل و باہمت پایا۔ ہم 6 گھنٹے سفر کرنے کے بعد جہاں بھی رکتے، تو تھکن کی وجہ سے دوستوں کی اکثریت کسی پتھر کا سہارا لیکر بیٹھ جاتا، کسی کو اٹھنے کی توفیق نہ ہوتی۔ ایک دلوش تھا، جو اٹھ کر چائے کی کیٹلی و سامان نکال کر چائے پکانے میں لگ جاتا، اس کے ہاتھوں کی چائے پی کر سب دوست واپس بیدار ہوکر تازہ دم ہوجاتے۔
سنگت دلوش ایک مہربان سنگت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کا درد سمجھنے والا انسان تھا۔ بولان پہنچ کر ہم کچھ وقت مہینے ساتھ گذارے، بعد میں وقت و حالات کو مدنظر رکھ کر ہم جتھوں میں تقسیم ہوگئے۔ اور پھر سنگت دلوش سے ملاقات نہ ہو سکی، 8 مارچ کو ہمیں پیغام موصول ہوا کہ اس آپریشن میں سنگت دلوش تین سنگتوں کے ساتھ جام شہادت نوش کر گئے ہیں۔ وہ دن انتہائی کرب سے گذرا۔
سنگت دلوش بھلے جسمانی طور ہم سے جدا ہوگئے، لیکن آج بھی وہ ہر قدم ہر اس کاروائی میں جو دشمن کے خلاف ہوتی ہے ہمارے ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔
سنگت داد علی عرف مسٹر جیم :
نوعمر سنگت مسٹر جیم قد میں چھوٹا لیکن ہمت و بہادری کا پہاڑ، مسٹر جیم اپنے فرائض بخوبی سر انجام دے رہا تھا، سنگت جیم سے ملاقات بولان کیمپ میں ہوا۔ معمول کی طرح ایک رات ہم سارے دوست آگ کے قریب بیٹھ کر مجلس کر رہے تھے، مسٹر جیم کہتا ہے کہ میں فدائی حملہ کرونگا اور دشمن کو نقصان پہنچا کرواپس آونگا۔ سنگت محترم نے کہا۔
واہ مسٹر فدائی کرکے صحیح سلامت واپس بھی آوگے؟ میں نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
مسٹر بندوق اٹھا کر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا بالکل اس میں کوئی شک؟
اس بات کو لیکر ہم نے اسے بہت تنگ کیا۔
“جیم بیا ایدا نند قوم ء واسطہ تقریر ء کاں “سنگت محترم نے مسٹر جیم نے کہا۔
“ما تقریر آ پوہ نا باں ما سرمچاراں دژمن آ جناں بس”
مسٹر جیم نے ہماری طرف دیکھ کرکہا۔
مسٹر جیم نے دشمن کو باور کرایا کہ عمر میں چاہے جتنا چھوٹا ہوجاوں، لیکن تمہارے آگے ایک مظبوط چٹان بن کر کھڑا رہونگا اور وہ آخری سانسوں تک دشمن کے آگے چٹان بنکر کھڑا رہا۔
شہید لعل خان عرف ء چاچا :
چاچا مجھے ہر روپ میں دکھا، کھبی ایک شفیق باپ کی صورت تو کھبی حوصلہ دینے والا ایک عظیم جہد کار کی صورت، تو کھبی ہنسی۔مزاق کرنے والا ہنس مکھ سنگت کی صورت۔ چاچا نے اپنی پوری زندگی تحریک آزادی کے لیئے وقف کردی تھی۔ وہ بولان سے مکران و مکران سے بولان کے محاز پر جہد مسلسل میں مصروف عمل رہا۔
ایک دن ہم چار سنگت بیٹھ کر تاش کھیل رہے تھے چاچا اور شہید محترم بھی ساتھ میں تھے۔ اتنے میں تھپڑوں کی بارش ہوگئی ہم نے دیکھا کہ چاچا اور محترم ایک دوسرے کو زور زور سے تھپڑیں مارتے گئے، دونوں کے گال سرخ ہوگئے اور زور زور سے ہنسنے لگے
“تہ دی بے ایمانی کتہ ما دی بے ایمانی کوتو حساب برابر ”
چاچا نے قہقہہ لگا کر کہنے لگا۔
عجیب انسان تھے اتنے دلبر اتنے خوش مزاج کے ان کے ساتھ بتایا گیا ہر لمحہ انمول تھا وقت گزرنے کا معلوم ہی نہیں ہوتا ۔ ۔ ۔
گوزو آپریشن میں چاچا ہمارے ساتھ تھا۔ ایک طرف ہمارے اوپر دشمن کے ہیلی کاپٹرز گھوم رہے تھے، دوسری طرف چاچا اور محترم کی ہنسی مزاق۔ دوسری رات ہم وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے، اگلے دو دن میں ہم دوستوں کے پاس پہنچے اور دوسری شام پھر ہمیں سفر کرکے وہاں سے نکلنا تھا، گھپ اندھیرا تھا کسی کو ٹارچ آن کرنے کی اجازت نہ تھی
“او ما تہ کورے چماں گوں اچ نہ گنداں ”
چاچا نے ہنستے ہوئے کہا۔
اب چاچا کو ٹارچ آن کرنے کی اجازت مل گئی
اب ہم تھوڑی سفر طے کرتے تو چاچا ٹارچ ہماری طرف کر دیتا اور پھر اپنی روشنی اپنی طرف کر دیتا ہم سب ملکر چلاتے
“چاچا لائٹ آ ما جا مارا کور کوتہ”
اور پھر وہ ہنسنے لگتا
آپریشن کے کچھ دن بعد چاچا نے اپنے لئیے جھونپڑی بنایا، اب جھونپڑی کے آگے بیٹھ کر وہ اپنا بےسرا سرونز بجاتا، ہماری جگہ کچھ فاصلے پہ نیچے پتھر کے قریب تھا، ہم ہر شام کھڑے ہوکر آواز لگاتے او چاچا خدا کےلیئے اپنا یہ سرونز بجانا بند کرو۔ ایک تو آپ کو بجانا نہیں آتا، اوپر سے ہر دو گھنٹے بعد آپ شروع ہو جاتے ہو۔ تب وہ نیچے آکر ہنسنے لگتا اور ہمیں کہتا کہ ” میں بجاوں گا ہر وقت بجاوں گا، اگر تم لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے تو یہاں سے کوچ کرکے کسی اور جگہ بیٹھ جا ۔
دوستوں نے چاچا کو کئی بار گھر جانے کو کہا کہ اب آپ بھوڑے ہو چکے ہو آرام کر لو۔
تو چاچا کا جواب ملاحظہ کریں
“ایک ایسے وقت میں کہ جہاں میرے سارے رشتہ دار دشمن کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے، میں انہیں کیا جواب دونگا کہ میں واپس گھر کیوں آیا؟ میں واپس گھر نہیں جاونگا، میں نے عمر کا نصف حصہ اس جہد میں گذارا اور عمر کے اس حصے میں پہنچ کر میں اس جہد سے دستبردار نہیں ہو سکتا میں لڑونگا”
بے شک آپ نے ثابت کر دیا،آپ ان بوڑھوں کے لئیے مثال ہو، جو عمر کے اس حصے میں پہنچ کر آرام کو ترجیح دیتے ہیں۔ آپ نے جان کا نذرانہ دیکر ثابت کردیا کہ اس جہد مسلسل میں عمر کی کوئی اہمیت نہیں، ہوتی اگر کوئی شہ اہمیت کے قابل ہے تو وہ ہے آزادی۔
شہید محی الدین عرف نجیب جان :
قد آور دبلا پتلا نوجوان نجیب جان کی بہادری و حوصلہ میں نے کسی سنگت میں نہیں دیکھا۔ ہم نے شہری محاذ پر ایک ساتھ کام کیا لیکن ایک دوسرے کے چہرے کافی وقت دیکھ نہیں پائے، ہمیں ایک دوسرے کے بارے معلومات نہیں تھا کیونکہ ہم ایک دوسرے سے کیموفلاج تھے۔
ایک واقعہ یہاں ضرور بتانا چاہوں گا کہ جب ہم نے ایک دوسرے کی آواز کو پہچانا لیکن ایک دوسرے کو یہ باور کرنے نہ دیا کہ ہم نے ایک دوسرے کو پہچان لیا ہے، مذکورہ واقعہ مجھے اسکی بہت یاد دلاتی ہے۔ شام کے 6 بج رہے تھے مجھے ایک سنگت کی طرف سے میسج ملا کہ میں مصروف ہوں تم فلاں جگہ پہنچو ایک سنگت آپ کا انتظار کررہا ہے۔ میں اپنے تیاری کرکے اسی جگہ پہنچ گیا کافی اندھیرا تھا، میں نے دیکھا ایک سنگت منہ ڈھانپ کر موٹر سائیکل پر بیٹھ کر انتظار کر رہا ہے۔ میں قریب پہنچ کر آہستگی سے آواز دی کی فلانی ہو؟
جی سنگت، اس نے جواب دیا
اب اس آواز کو سن کر میں نے اسے پہچان لیا۔
سنگت آپ موٹر سائیکل چلاو باقی کام میں سنبھالتا ہوں۔
نجیب نے کہا۔
ہم کاروائی کرکے روانہ ہوگئے دوسری گلی میں داخل ہوئے، تو گلی کے آخر میں دو کھنبے لگے ہوئے تھے، ہم کافی سپیڈ میں جا رہے تھے، کھنبے سے ٹکرا کر گر گئے۔
یار تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ یہ گلی آگے جاکر بند ہوتی ہے۔
میں نے غصے میں کہا ۔
تھوڑی دیر پہلے میں نے تین بار کہا کہ گلی بند ہے گلی بند ہے ۔
سنگت نے ہنستے ہوئے کہا
کچھ ماہ بعد سنگت کی طبعیت خراب ہوگئی اور اس کے آنتوں کا آپریشن ہوگیا، رات کا وقت میں اس کے ساتھ ہسپتال میں گذارتا۔ کچھ دن بعد سنگت ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا۔ اسی دوران ہمارے ساتھی پکڑے گئے، میں وہاں سے نکل کر گاوں چلا گیا اور کچھ دن بعد دوستوں کے پاس پہنچا۔ ایک سال بعد سنگت نجیب سے فون پر بات ہوئی۔ اشتہاری بن کر کبھی یہاں چھپنا کھبی وہاں۔ مجھ سے یہ سب کچھ برداشت نہیں ہو رہا، میں بالکل ٹھیک ہوں، میں آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں۔ میں اپنی سرذمیں کے لیئے لڑنا چاہتا ہوں ۔
سنگت نے کہا۔
ٹھیک ہے میں کچھ کرتا ہوں۔
ایک ماہ بعد سنگت ہمارے پاس پینچا وہ بہت خوش تھا، اسی رات ہم دیر تک بیٹھ کر اپنے پرانی یادوں کو دہراتے رہے۔ دوسرے دن ہم کسی کام سے جارہے تھے، تو ہم نے سنگت نجیب کو دوسرے سنگتوں کے پاس بھیج دیا۔
8 مارچ کو ہمیں سنگت نجیب کی شہادت کی اطلاع ملی کہ وہ بہادر فرزند جس نے آرام کی زندگی کو ترجیح نہیں دی، وہ پہاڑوں کا رخ کرکے اپنے دھرتی پہ فنا ہو گیا۔