کوئٹہ لاپتہ ظہیر بلوچ کی عدم بازیابی کے خلاف لواحقین کی ریلی اور پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ
تفصیلات کے مطابق کوئٹہ سے جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے ظہیر بلوچ کی عدم بازیابی کے خلاف اہلخانہ کی جانب سے کوئٹہ میں ریلی و احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جہاں بڑی تعداد میں لوگ مظاہرے میں شریک ہوئے۔
کوئٹہ ریلی میں مظاہرین نے ہاتھوں میں لاپتہ افراد کے تصاویر اُٹھائے ہوئے تھے اور انکی بازیابی کا مطالبہ کررہے تھیں۔
کوئٹہ ریلی سے گفتگو میں لاپتہ ظہیر احمد بلوچ کے اہل خانہ کہنا تھا ظہیر احمد ولد ڈاکٹر حاجی عبداللہ ایک سرکاری ملازم ہے اور گذشتہ 15 سالوں سے پاکستان پوسٹ آفس میں بحیثیت کلرک ڈیوٹی سر انجام دے رہے تھے، وہ 27 جون بروز جمعرات کو 2 بجے کے ٹائم اپنے دفتر میں جی پی او کوئٹہ واقع زرغون روڈ سے اپنے گھر کلی بنگلزئی سریاب روڈ کے لیے نکلتے ہیں تو گھر پہنچنے سے پہلے دن دہاڑے لاپتہ کر دیے جاتے ہیں۔
ظہیر احمد کے لواحقین کا کہنا تھا ظہیر احمد ایک سرکاری ملازم ہے اور اسکا کوئی سیاسی بیک گراؤنڈ نہیں صرف خاندانی اور خونی رشتوں کی بنیاد پر ظہیر احمد سمیت دوسرے رشتہ داروں کو وقتاً فوقتاً ہراساں کیا جا رہا ہے اور گھروں پہ رات کی تاریکی میں کئی دفعہ چھاپے مارے گئے ہیں۔
لواحقین کا کہنا تھا ظہیر احمد بلوچ کو پاکستانی فورسز سی ٹی ڈی اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے کوئٹہ سے جبری لاپتہ کیا اس حوالے سے ہم نے پریس کانفرنس میں ان کی بازیابی کی اپیل کی اور ظہیر احمد کی عدم بازیابی کی صورت میں ہم نے مجبوراً احتجاج کا راستہ اپنایا۔
لاپتہ ظہیر احمد بلوچ کے اہلیہ کا مزید کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی ہم نے ہفتوں تک احتجاجی دھرنا دیا ریڈ زون میں گئے ہم پر تشدد ہوا البتہ ہم نے اپنا دھرنا جاری رکھا بعد ازاں انتظامیہ کے یقین دھانی پر دھرنا ختم کردیا، لیکن اسکے باوجود ظہیر بلوچ منظرعام پر نہیں آسکے ہیں-
انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر ظہیر بلوچ پر کوئی بھی الزام عائد ہوتی ہے تو اسے عدالتوں میں پیش کرے بصورت دیگر انھیں بازیاب کرکے مجھے اور میرے بچوں کو ازیت سے نجات دلائی جائے۔
مزید برآں کوئٹہ ریلی میں دیگر بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین اور سیاسی تنظیموں کے ارکان سمیت طلباء بڑی تعداد میں شریک ہوئے اور بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا خاتمہ اور لاپتہ پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا ہے-