ایک اعلیٰ امریکی اہل کار نے کہا ہے کہ کابل میں منعقدہ بین الاقوامی امن اجلاس کے بعد ’’ہم نے پاکستان کے رویے میں ابھی تک کوئی فیصلہ کُن یا واضح تبدیلی نہیں دیکھی‘‘۔ تاہم، بقول اہل کار، ’’ہم یقینی طور پر اُن معاملات پر پاکستان کے ساتھ رابطے میں ہیں جہاں ہم سمجھتے ہیں کہ وہ طالبان کی سوچ کی تبدیلی میں کوئی کارگر کردار ادا کر سکتا ہے‘‘۔
اُنھوں نے یہ بات پیر کے روز واشنگٹن میں دی گئی ایک ’بیک گراؤنڈ بریفنگ‘ کے دوران ذرائع ابلاغ کے سوالوں کے جواب میں کہی۔
’وائس آف امریکہ‘ کے نمائندے نے اُن سے پوچھا تھا آیا ایسے میں جب امریکہ نے پاکستان کی امداد منجمد کردی ہے، معاملہ جب افغانستان کا ہو تو کیا پاکستان کے رویے میں کوئی تبدیلی دیکھی گئی ہے؟
اہل کار نے بتایا کہ ’’ہم حکومتِ پاکستان کے ساتھ تعلق کی ابتدا کے مرحلے میں ہیں۔ ابھی اعلیٰ سطحی تبادلوں کا سلسلہ ہوگا۔ جس ضمن میں پاکستان کی سکریٹری خارجہ، (تہمینہ) جنجوعہ منگل کو واشنگٹن میں ملاقاتیں کرنے والی ہیں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ہم پاکستان سے دور نہیں ہو رہے ہیں۔ ہمارے فوجی اور سولین چینلز دونوں کی جانب سے انتہائی زوردار مکالمہ ہونے والا ہے، آیا ہم کس طرح سے مل کر کام کرسکتے ہیں۔ یعنی، افغانستان کے استحکام میں مدد دینے کے حوالے سے پاکستان ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے‘‘۔
اس سوال پر کہ کابل میں منعقدہ بین الاقوامی امن اجلاس میں پاکستان کا کیا کردار رہا، اعلیٰ امریکی اہل کار نے کہا کہ ’’امن عمل میں پاکستان کا انتہائی اہم کردار ہے‘‘۔
بقول اہل کار، ’’ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان مذاکرات کے لیے سہولت کاری کی فراہمی میں یقینی طور پر مدد دے سکتا ہے۔ اور، ایسے اقدام اٹھا سکتا ہے جس کے نتیجے میں دباؤ ڈالا جاسکے اور طالبان کی حوصلہ افزائی ہو کہ وہ سیاسی مذاکرات کے ذریعے تصفیے کی جانب قدم اٹھائیں۔ اور پاکستان کے ساتھ ہمارا رابطہ اس لیے ہے کہ ہم کس طرح سے مل کر کام کرسکتے ہیں؛ کہ ہم پاکستان کی جائز تشویش پر دھیان دینے اور بات چیت کے عمل کے ذریعے افغانستان کے استحکام کو کس طرح فروغ دے سکتے ہیں۔‘‘
اُنھوں نے کہا ’’ظاہر ہے کہ پاکستانی حکام نےکئی ایک معاملات کی نشاندہی کی ہے؛ چاہے ’بارڈر منیجمنٹ‘ ہو، مہاجرین کا معاملہ ہو یا دہشت گردی جو افغانستان کے ایسے مقامات سے سامنے آتی ہے جہاں حکمرانی کا فقدان ہے، جو اُن کی تشویش کے اہم معاملے ہیں۔‘‘
اس سلسلے میں، اعلیٰ امریکی اہل کار نے مزید کہا کہ ’’ہم اس سے اتفاق کریں گے کہ مفاہمتی عمل کے دوران ضرورت اس بات کی ہوگی کہ اِن تمام معاملوں کو حل کیا جائے‘‘۔
اہل کار نے کہا کہ جنوبی ایشیا کی حکمت عملی کے تحت ’’ہم نے طالبان پر فوجی دباؤ جاری رکھا ہے، اور سمجھتے ہیں کہ فوجی کوششوں کے ذریعے مذاکرات کی راہ ہموار ہوگی‘‘۔
ایک اور سوال پر، اہل کار نے بتایا کہ پاکستان کو ’بارڈر منیجمنٹ‘، تحریک طالبان، افغانستان کے لاقانونیت کے شکار مقامات، مہاجرین کے معاملے سمیت امور پر تشویش ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’افغانستان پاکستان تعلقات کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہم اُن کے باہمی تعلقات میں بہتری کی کوششوں کے حامی ہیں۔ گذشتہ کچھ ماہ کے دوران دونوں ملکوں نے دوروں کا تبادلہ کیا ہے، تاکہ سمجھوتے کا ایک ’فریم ورک‘ تیار کیا جا سکے؛ تاکہ باہمی تعلقات کو فروغ دیا جاسکے۔ ہم اس کی حمایت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ اہم معاملہ ہے‘‘۔
طالبان کے بیان کے حوالے سے سوال پر، اہل کار نے ایک بار پھر اس بات اعادہ کیا کہ ’’امریکہ نے اقتدار اعلیٰ کی حامل حکومت کی دعوت پر اپنی افواج افغانستان میں تعینات کی ہوئی ہیں‘‘۔