میرے یار فدائی خدا دوست ۔ میرک مرید

585

میرے یار فدائی خدا دوست
تحریر: میرک مرید
دی بلوچستان پوسٹ

رات کو جب بھی میں سونے کے لئے جاتا ہوں، تو پہاڑوں کی خاموشی اور سناٹے اب مجھے بہت بہت سکون دیتے ہیں مجھے یاد ہے جب پہلے دن جب میں ان پہاڑوں پہ آیا تھا تو ہر چیز میرے لئے انجان تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسے لگتا کہ میرا جنم انہیں پہاڑوں میں ہوا ہے، میراسب کچھ یہی نوک دار پھتر، راتوں کا سناٹا، پہاڑوں کی خاموشی میرا سب کچھ یہی ہیں۔

رات کو میری عادت ہے جب بھی میں سونے کے لئے لیٹتا ہوں تو مجھ سے بہت دور آسمان میں ستاروں کو دیر تک دیکھتا ہوں، یوں دیکھتے دیکھتے خبر نہیں رہتا کب سو جاتا ہوں، اور ہر وقت یہی سوچتا ہوں یہی ستارے میرے بلوچ شہید ہیں، اور ہر ستارے پر کسی شہید کا نام رکھ دیا ہے اور سوتے وقت میں کھلے آسمان سوکر اپنے شہیدوں سے ہمکلام ہوجاتا ہوں۔

وہ ایک چمکتا ستارہ جسے میں ہر رات دیکھتا رہتا ہوں اس کو میں نے اپنا یار فدائی خدا دوست کا نام دیا ہے جس سے میں ہر رات بات کرتا ہوں۔

وہ میرا یار ہے جو کل تک میرے ساتھ میرے بغل میں سوتا تھا اور ہم ایک ساتھ آسمان پہ ان ستاروں کو دیکھا کرتے تھے اور کہاں سے کہاں جاتے تھے۔ آج بھی میرا یار میرے ساتھ ہے میرے روبرو مگر آج ہم بہت دور سے ایک دوسرے کا نظارہ کررہے ہیں، اور بہت سی باتیں کررہے ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوں کب مجھے بھی ستاروں کی طرف بلاؤ گے، وہ کہتا ہے جب بھی مادر زمین تم کو روشنی دینے کے لئے مجھ تک پہنچائے گا تو میں تمہیں اپنے ساتھ بالکل بغل میں خوش آمدید کہوں گا۔ اس دن پوری کائنات محو رقص ہوگی کہ دو یار پھر سے بغل گیر ہورہے ہیں۔ بس یہی سن کر پتہ نہیں کتنی خوشی کے ساتھ میں یہی خواب لیکر سوجاتا ہوں۔

میں ہر رات جب سونے کے لئے جاتا ہوں تو لازم اس چمکتے ستارے سے بہت زیادہ باتیں کرتا ہوں اور اسکے تصور میں بہت دور تک چلا جاتا ہوں۔

آج آدھی رات کو جب میں نیند سے بیدار ہو کر پہرا دینے پہاڑ کی چوٹی پر گیا تو دیکھا آج وہ ستارہ بادلوں کی وجہ سے نظر نہیں آرہا تھا، آج میں بہت اداس رہا اور دیر تک اپنے یار کا انتظار کرتا رہا اور مگر آج میرا دوست بادلوں کی آغوش میں سو رہا تھا۔ تو میں نے وائرلیس کو ایک طرف رکھا اور پہرا دینے لگا۔

سبزو جان (فدائی خدا دوست) میں جب بھی پہرا دینے جاتا ہوں تو تمارے وہ پنت و نصیحت میرے ذہن میں آجاتے ہیں کہ گوریلا جنگ میں پہرے کی اہمیت اتنی ہی زیادہ ہے جتنی کسی ساتھی سرمچار کے جان کا کیونکہ یہ پہرا ہوتا ہے جو ہمیں دشمن سے بچاتا ہے۔ دشمن کے حملہ آور ہونے سے پہلے پہرا آپ کو معلومات فراہم کرتا ہے جو ساتھی سرمچاروں کی حفاظت کو یقینی بناتا ہے۔

نتیجتاً دشمن کے حملے سے پہلے آپ دشمن پر حملہ آور ہو سکتے ہیں ۔
پہرے دار پر سارے دوستوں کی حفاظت کا ذمہ ہوتا ہے، کیونکہ اوتاک (کیمپ) گشت یا دوسرے جگہوں پر سارے دوست پہرے (گاٹ) کی وجہ سے آرام کرسکتے ہیں۔ پہرے دار کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے دوست سرمچار بڑے سے بڑا نقصان اٹھا سکتے ہیں۔ اس لیئے پہرے دار کو ہر وقت اپنی آنکھیں اور کان کُھلی رکھنی ہوتی ہیں اور حاضر دماغ ہونا ہے۔

پہرے دار کو علاقے سے واقف ہونا دور بین اور واکی ٹاکی پر مکمل مہارت رکھنا چاہیے ۔ اسے سخت سے سخت حالات سے گھبرانا نہیں چاہیے اور دشمن کے حملے کی صورت میں دوستوں کو دشمن کے گھیرے سے نکالنے کا ذمہ پہرے دار کی ہے ۔

فدائی خدا دوست ایک شاعر، درویش اور انتہائی مخلص ساتھی تھے۔ وہ مجھ سے ہر وقت کہتے تھے کہ میرک جان ہماری جنگ بہت ہی مقدس اور پاک جنگ ہے ہم ایک ایسی جنگ کررہے جہاں ہمارا مقصد بس جنگ ہی جنگ نہیں، ہمارا مقصد انسانیت، امن، خوشحالی اور ہمارے قوم کو شعور کی انتہا تک پہنچانے کی جنگ ہے۔ اس لئے اس مقدس جنگ میں تمہیں اپنی پوری وجود کو قربان کرنا پڑے تو مکمل مخلصی، محنت اور قربانی کے جذبے سے میدان جنگ میں دشمن پہ عذاب بن کر برسو۔ ہماری جان اسوقت تک قیمتی ہے جب تک یہ جان اسی عظیم مقصد کے لئے جد و جہد کرتا رہے اور اگر اسی عظیم اور مقدس مقصد کےلئے تمہیں اپنی جان بھی دینا پڑے تو خوشی خوشی موت کو اپنے گلے لگانے کےلئے بھی مت ڈرو۔

فدائی خدا دوست اپنا فکر و نظریہ لیکر اپنے مقدس اور عظیم مقصد کو لیکر اپنے زمین پہ فدا ہوجاتے ہیں اور تاریخ میں اپنے نام کو زر پہازگ میں شامل کرتے ہیں۔ مجھے کھبی بھی یہ گمان نہیں رہا کہ میرا یار فدائی کاروان میں شامل اپنی زِر و زمین پہ ندر ہونے کا انتظار کررہے ہیں، بس کھبی کھبی ہم اگر ان فدائی سنگتوں کا ذکر کرتے تو اسکی آنکھوں سے یہ گماں رہتا کہ اس میں بھی فدا ہونے کی تڑپ آتش کی طرح جلتی جارہی ہے اور وہ اس آتش سے خزاں کو بہاروں میں بدلنے کے خواب خود میں پیوست کرچکے ہیں ۔

میں جب مذاق میں کہتا کہ یار سبزو مجھے کیوں ایسا لگتا ہے کہ تم اس انتظار میں ہو کہ کب تم بھی فدا ہوجاؤ، تو ہنستے اور کہتے تھے کہ میرک جان فدائی ہونے کے لئے جگرِ اسلم ہونا چاہیے وہ ہم بد نصیب کو کہاں بس تم دعا کرنا کہ وہ جگر بھی ہم کو نصیب ہو۔۔

میرے یار میرے سبزو جس طرح تم نے کہا تھا کہ ہماری یہ جنگ مقدس، پاک اورعظیم ہے اسی طرح تمہاری سوچ، تمہاری روح اور تمہاری پوری وجود مقدس، پاک اور عظیم ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء کے ذاتی خواہش مند ہیں، ان کی طرف سے دی بلوچستان پوسٹ نیٹورک متفقہ ہے یا اس کے خیالات کی پالیسیوں کا اظہار ہے۔