کمیونسٹ رہنما جام ساقی انتقال کر گئے

338

پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے سابق سیکریٹری جنرل جام ساقی پیر کی صبح حیدرآباد میں انتقال کر گئے۔

ان کی عمر 74 برس تھی۔

جام ساقی گذشتہ کئی برس سے عارضۂ قلب، ذیابیطس اور گردوں کی بیماریوں میں مبتلا تھے۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ پیر کی صبح ان کی ہلاکت گردے فیل ہونے کی وجہ سے ہوئی۔

جام ساقی کی پیدائش سندھ کے صحرائی علاقے تھرپارکر کے گاؤں جنجھی میں ہوئی، جہاں سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے میٹرک چھاچھرو سے کیا اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے وہ حیدرآباد آگئے جہاں سے انہوں نے سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔

حیدرآباد اور بعد میں سندھ یونیورسٹی میں وہ طلبہ تنظیموں میں سرگرم رہے اور بائیں بازو کی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بعد میں انھوں نے کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔

جام ساقی کا شمار سندھ کے طلبہ تحریک میں 4 مارچ کے ہیروز میں ہوتا ہے۔

ان کی زندگی زیادہ تر زیرِ زمین اور جیلوں میں گزری۔ اسیری کے دوران انھیں شاہی قلعے اور مچھ جیل میں صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ 1980 کی دہائی میں جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں جب کمیونسٹوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا تو انھیں دیگر ساتھیوں سمیت گرفتار کیا گیا بعد میں یہ کیس جام ساقی کیس کے نام سے مشہور ہوا۔

فوجی عدالت میں اس کیس کی سماعت کے دوران بینظیر بھٹو، ولی خان، غوث بخش بزنجو سمیت اس وقت کے سرگرم سیاسی رہنما ان کے لیے گواہی دینے پہنچے، کہا جاتا ہے کہ اس کیس نے سیاسی قیادت کو رابطے کا پہلا پلیٹ فارم مہیا کیا تھا۔

انھوں نے 1988 میں تھرپارکر سے قومی اسمبلی کی نشست پر انتخابات میں حصہ لیا لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوئی، جس کے بعد انھوں نے سندھ میں امن اور سیاسی شعور کے لیے کموں شہید سے کراچی تک پیدل لانگ مارچ کیا تھا۔

1994 میں انہوں نے سابق وزیر اعلیٰ سید عبداللہ شاہ کے اصرار پر پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی، جس کے بعد انھیں صوبائی مشیر جیل خانہ جات مقرر کیا گیا تھا لیکن جلد حکومت کے خاتمے کے بعد وہ پیپلز پارٹی سے دور ہو گئے۔

کامریڈ جام ساقی انسانی حقوق کمیشن کے سرگرم رکن بھی رہے، بدین میں لڑکیوں کی خریدو فروخت کی (فیکٹ فائنڈنگ) تحقیقات کے لیے جب وہ ارباب غلام رحیم کے رشتے داروں کے گاؤں پہنچے تھے تو ارباب ان پر ناراض ہوگئے اور ان کے گھر پر چھاپہ مار کر ان کی بیگم کو گرفتار کیا گیا تھا۔

انھوں نے سندھی میں ناول کھاڑوی کھجن تحریر کیا جبکہ جام ساقی کیس کے تفصیلات اور بیانات ’آخر فتح عوام کی ہو گی‘ اور ’ضمیر کے قیدی‘ میں شامل ہیں، حال ہی میں احمد سلیم نے جام ساقی کی زندگی پر کتاب ’چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘ تحریر کی ہے۔