بلوچستان کے ضلع خضدار گریشہ سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین نے کہا ہے کہ رواں سال 19 جولائی صبح چار بجے کے قریب چھ گاڑیوں میں وردی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس فورسز جن میں سی ٹی ڈی اور FC کے اہلکار شامل تھے ، کوچو گریشہ میں ہمارے گاؤں کا محاصرے کرکے گھروں پر حملہ آور ہوئے ۔
انہوں نے کہاکہ ہمارے نوجوان، بچوں اور عورتوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور گھروں میں توڑ پھوڑ کی موٹر سائیکل ،موبائل فون ،زیورات اور نقد رقم اپنے ساتھ لے گے۔
انہوں نے کہاکہ خاندان کے چھ افراد کو غیرقانونی حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا ، جن میں شاہ جان ولد سلیم جان، گوہر دین ولد خیر جان، محمد جان ولد لعل بخش، معیار ولد لعل بخش محمد، عارف ولد عبدالرحمن شامل ہیں جبکہ منیر احمد ولد صبرو کو تشدد کے بعد سڑک پر پھینک دیا گیا۔
انہوں نے کہاکہ ہم نے اپنے بچوں کی زندگی بچانے کے لیے پہلے گریشہ مین سی پیک روڑ پھر ٹوبڑو نال کے مقام پر تین تک دھرنے دیا ،اس دوران اے ڈی سی خضدار، اے سی نال کے ساتھ مذاکرات کے بعد ہم نے احتجاجی دھرنا ختم کیا اور اے ڈی سی خضدار سے تحریری طور پر معاہدہ کیا کہ اگر پانچ دن تک ہمارے لوگوں کو بازیاب نہیں کیا گیا تو اس کی ذمہ دار انتظامیہ اور مذاکراتی ٹیم خاص کر اے ڈی سی ہونگے۔
انہوں نے کہاکہ اس مذاکرات کے بعد گورالدیں ولد خیر جان ،میار والد لعل بخش کو عدالت میں پیش کیا گیا،
لیکن اس کے بعد 15 اگست کو باقی لوگون پر ایک جھوٹی ایف آئی آر درج کی گئی ہے جن میں محمد جان ولد لعل بخش، عارف ولد عبد الرحمن،سلیم جان ولد محمد جان شامل ہیں ۔
لواحقین نے کہاکہ ان لوگوں پر ایف آئی آر کرنا ریاست کی غیر سنجیدگی کا منہ بولتا ثبوت ہے، جس کی ہم شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔