گریشہ: ہمارے لاپتہ پیاروں کو رہا نہیں کیا گیا تو احتجاج کا راستہ اپنائیں گے – لواحقین

183

گریشہ سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے افراد کے لواحقین نے کہا ہے کہ 19 جولائی صبح چار بجے کے قریب چھ گاڑیوں میں وردی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس ریاستی فورس سی ٹی ڈی نے کوچو گریشہ میں ہمارے گاؤں پر حملہ کردیا، لوگوں پر اندھا دھند گولیاں چلائیں۔ ہمارے نوجوان بچوں کو غیرقانونی حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا، ہمارے گھروں میں لوٹ مار کی گئی ۔

انہوں نے کہاکہ چھ نوجوانوں کو حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا گیا جن میں شاہ جان ولد سلیم جان، گوہر دین ولد خیر جان، محمد جان ولد لعل بخش، معیار ولد لعل بخش محمد، عارف ولد عبدالرحمن، منیر احمد ولد صبرو شامل ہیں جبکہ منیر بلوچ کو تشدد کے بعد سڑک پر پھینک دیا گیا تھا ۔

انہوں نے کہاکہ اس واقعے کے بعد ہم پولیس کے پاس اپنے عرضی لے کر گئے کہ ہمارا ایف آئی آر درج کیا جائے، لیکن پولیس نے اس عظیم جرم کے خلاف ہمارا ایف آئی آر درج کرنے سے صاف انکار کردیا۔

لواحقین نے کہا ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کی زندگی بچانے کے لیے پہلے گریشہ مین سی پیک روڑ پھر ٹوبڑو نال کے مقام پر دھرنے دیا اس دوران اے ڈی سی خضدار اے سی نال کے ساتھ درج زیل نکات پر مذاکرات کے بعد ہم نے احتجاجی دھرنا ختم کردیا کہ ہمارے لوگوں کو بازیاب کیا جائے اگر ریاست سمجھتی ہے کہ انہوں نے کوئی جرم کی ہے تو انہیں اپنے بنائے ہوئے عدالتوں میں پیش کریں۔

مزید برآں ہمارے لوگ کس ادارے کے پاس ہیں تو ہمیں اس ادارے کے نام ہمارے لوگوں کی جان کی حفاظت کی ذمہ داری دی جائے۔

انہوں نے کہاکہ اے ڈی سی خضدار نے تحریری طور پر معاہدہ کیا کہ اگر پانچ دن تک ان نقاط پر عمل درآمد نہیں کیا گیا تو اس کا ذمہ دار میں انتظامیہ، مذاکراتی ٹیم خاص کر اے ڈی سی پر ہوگی۔

لواحقین نے کہاکہ لیکن اس مذکرات کے بعد گورالدیں ولد خیر جان ، میار والد لعل بخش کو عدالت میں پیش کی گئی لیکن باقی لوگوں کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہے۔

انہوں نے کہاکہ اب 5 دن کے بجائے 19 دن گزر گئے لیکن ہمارے لوگوں کو بازیاب نہیں کیا گیا ہم انتظامیہ کو تنبیہ کرتے ہیں اگر 48 گھنٹے کے اندر اندر ہمارے باقی 3 لوگون کو بازیاب نہیں کیا گیا تو ہم جمہوری طور پر شدید احتجاج کی حق رکھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنے بلوچ بھائیوں اور بہنوں سے عرض کرتے ہیں کہ یہ صرف ہمارا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ظلم کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر ہم خاموش رہے تو ہماری ماں بہنوں کو روزانہ رلایا جاتا رہے گا، ہمارے نوجوانوں کو ہم سے چھین کر تاریک زندانوں میں لاپتہ کیا جاتا رہے گا۔ اگر ہم متحد رہے اور یکجہتی کے ساتھ آواز اٹھائی تو ضرور انصاف حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔