گوادر فوج کے محاصرے میں،سینکڑوں مقامی لوگ گھروں میں واپسی کے منتظر

752

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر آج گیارہواں روز فوجی محاصرے میں ہے، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی بلوچ راجی مچی پر کریک ڈاوں اور راستوں کی بندش کے سبب گوادر کے ہزاروں شہری گوادر سے باہر اور گوادر جانے سے قاصر ہیں ۔

گوادر کے ایک رہائشی جاوید 26 جولائی کو بچی کی علاج کے سلسلے میں کراچی گیا تھا لیکن اب وہ گوادر میں داخل نہیں ہوسکتا ہے اور اپنے بچوں کے ساتھ حب چوکی میں رشتہ دار کے گھر میں قیام کررہا ہے ، جاوید نے دی بلوچستان پوسٹ کو بتایا کہ 28 جولائی کے بعد ہم نے دو مرتبہ گھر جانے کی کوشش کی لیکن فوج ہمیں راستے سے واپس کرتا ہے۔ ہم اپنے گھر جا نہیں سکتے ہیں ۔ وہاں ہمارا کاروبار بند اور یہاں ہمارے پیسے ختم ہوچکے ہیں ۔

انہوں نے اعلیٰ حکام سے اپیل کی ہے کہ گوادر کے ہزاروں شہری جو دیگر علاقوں میں پھنس چکے ہیں انہیں راستہ دیا جائے ۔

دی بلوچستان پوسٹ کو موصول اطلاع کے مطابق خلیجی ممالک عمان ، امارت ، بحرین اور دیگر ملکوں میں کام کرنے والے کئی شہری بھی گوادر میں محصور ہوچکے ہیں ، انکی چھٹیاں ختم ہوچکی ہیں لیکن فوج انہیں گوادر سے نکلنے نہیں دے رہا ہے ۔ اور انکی نوکریاں خطرے میں ہیں ۔

گوادر سے موصول اطلاع کے مطابق شہر میں خوراک کی قلت پیدا ہوچکا ہے ۔ کراچی اور ایران سے آنے والے خوراک کی گاڑیاں تلار اور کنڈ ملیر ، پسنی زیرو پوائنٹ پر دس روز سے پاکستانی فورسز نے روک رکھے ہیں ۔

شہریوں نے مطالبہ کیا ہے کہ گوادر کا محاصرے فوری ختم کرکے وہاں معمولات زندگی بحال کیا جائے ۔

شہریوں نے بتایا ہے کہ بلوچ راجی مچی میں شرکت اور حمایت کی پاداش میں گوادر کو غزہ پٹی میں تبدیل کیا گیا ہے ۔

اوتھل سے اطلاع ہیں کراچی سے گوادر جانے والے النوید بس کو کل رات سے پاکستانی فورسز نے زیروپوئنٹ میں روکا ہے، بس خواتین اور بچے سوار ہیں ، جو شدید گرمی کی وجہ سے مشکلات کے شکار ہیں ۔

گوادر سے رکن اسمبلی ہدایت الرحمان نے کہا ہے کہ گوادر جانے والے راستہ کھولنے پر حکومت اپنے وعدہ پر عملدرآمد نہیں کررہا ہے۔ اور فوج مسلسل جھوٹ بول رہا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ گوادر کا محاصرہ ختم کرکے شاہراؤں کو بحال کیا جائے۔