پاکستانی فورسز نے بلوچ راجی مچی کی تیاریوں میں مصروف کراچی سمیت کوئٹہ سے جلسے کے منتظمین کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا جن میں بلوچ یکجہتی کمیٹی اور بی ایس او کے ارکان تاحال منظر عام پر نہیں آسکے ہیں۔
پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جلسہ سے دو روز کراچی پولیس نے ایک گھر پر چھاپہ مارتے ہوئے بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے ذمہ دار بالاچ بلوچ کو تشدد کے بعد اپنے ہمراہ لے گئے تھے، ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود بالاچ بلوچ منظرعام پر نہیں آسکے ہیں۔
بالاچ بلوچ کی کراچی سے اغواء نماء گرفتاری پر بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کہا ہے کہ بالاچ بلوچ کو گوادر جلسے کے انتظامیہ کاموں کے وجہ سے پولیس اور سول وردی میں ملبوس خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لے تھا جس کے بعد سے بالاچ کے حوالے سے انکے خاندان اور بی وائی سی کو کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی ہے-
دوسری جانب گوادر جلسہ کے دو روز قبل ہی پاکستانی فورسز نے بڑی تعداد میں کوئٹہ کے ایک مقام پر چھاپہ مارتے ہوئے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ایک دھڑے کے چیئرمین جیئند بلوچ اور انکے ساتھی شیر باز کو حراست میں لیکر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا تھا-
اس حوالے سے جیئند بلوچ کی اہلیہ رضوانہ بلوچ نے بتایا کہ انکے شوہر کو گوادر میں منعقد جلسے کی تیاروں کے باعث حراست میں لیا گیا تاہم وہ اس دن سے لاپتہ ہیں اور منظرعام پر نہیں لائے گئے ہیں-
گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے راجی مچی جلسہ کے باعث ابتک درجنوں افراد کو حراست میں لیا جاچکا ہے جن میں متعدد تاحال کسی عدالت اور پولیس تھانے میں پیش نہیں کئے گئے ہیں-
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق ریاستی فورسز کی جانب سے ان کے گوادر جلسے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش میں ابتک ایک ہزار سے زائد ساتھیوں اور منتظمین کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ان گرفتار میں متعدد کے ٹھکانے کے بارے میں بھی ہمیں معلومات فراہم نہیں کئے جارہے ہیں-