کوہِ پَھراس و شاشان کی للکار – فرید مینگل

180

کوہِ پَھراس و شاشان کی للکار

تحریر: فرید مینگل

دی بلوچستان پوسٹ

جہلاوان کو نام و رتبہ ہمیشہ مزاحمتی کرداروں نے عطا کیا ہے، چاہے وہ یونانی لشکر کے خلاف لڑنے والے بلوچ سپوت و شہدا ہوں، عربوں کی قبضہ گیریت کے خلاف لڑنے والے بہادر شہید وطن زادے ہوں، سندان کی زوراکیوں کو چیلنج کرنے والے ہوں، انگریزی جبر و استبداد کے خلاف مزاحمت کرنے والے نورا مینگل جیسے روشن مینار ہوں یا پھر بابو نوروز، شہید علی محمد و شہید حاجی عبدالرحمان جیسے بہادر سپوت و مزاحمتی کردار ان سب نے جہلاوان کی اہمیت و اس کے نامِ تفاخر کو ہمیشہ بلند کیا ہے۔

اور پھر ان تمام کرداروں کو سَگھ، ہمت و حوصلہ ازل سے قائم ہمارے بلند و بالا پہاڑوں: پھراس و شاشان سے ملا ہے۔ انہی کو دیکھ کر ان کی بلندی و عظمت کو سمجھ کر جہلاوان کے فرزند پاک پوتر مزاحمتی کردار بن جاتے ہیں، پھر وہ کسی جنرل نیبرکس، بِن سلمان، میر سندان، ڈیہو، بھٹو، ٹکا خان مشرف و منیر کو خاطر میں نہیں لاتے وہ بس وطن کے دفاع میں نکل پڑتے ہیں لڑ پڑتے ہیں۔

مگر جہلاوان سے بہت دور، ایسے کوہِ پھراس و شاشان جیسے قد کاٹھی، پاک پوتر کردار اور ہمت و حوصلہ والے دو کرداروں سے مجھے بی ایس او نے ملوایا ہے وہ دو کردار جیئند بلوچ اور شیرباز بلوچ ہیں۔

ویسے تو بی ایس او کے بلوچ قوم و وطن پر احسانات اتنے زیادہ ہیں کہ بی ایس او کو بلوچ وطن، اس کی تاریخ اور اس کی ثقافت سے جدا کرنا بھی اب ناممکن ہے کہ اس مادر علمی نے اس وطن پر بلوچ کا حقِ ملکیت جتانے اور اسے منوانے میں اپنے ہزاروں سپوتوں کو قربان کیا ہے، کئی ہزار شہید و جلاوطن اور کئی ہزار دشمن کے ٹارچر سیلوں میں اب بھی اذیتیں سہہ رہے ہیں۔

بی ایس او کے موجودہ چیئرمین جیئند بلوچ اور سینیئر وائس چیئرمین شیرباز بلوچ کو ‘بلوچ راجی مُچی’ سے خوفزدہ ریاست نے 26 جولائی کو ان کے ساتھیوں سمیت لاپتہ کیا، اِس لیے کہ ‘بلوچ راجی مُچی’ نے ظالم اور بلوچ وطن پر مسلط نوآبادیاتی حاکم کی بنیادیں ہلا کر اسے بلوچ وطن کھو دینے کے اذیت ناک خوف میں مبتلا کیا ہے۔ ایسا عوامی ابھار کہ وطن کا کوچہ کوچہ، گاؤں اور دیہات ظالم استعماری قوت کے خلاف مزاحم ہیں اور عوام مسلسل بلوچ وطن پر بلوچ کے واک و اختیار کا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ یہ مطالبہ کسی پرسکون ماحول میں نہیں بلکہ خون، جبر، ظلم و سفاکیت کے سائے میں ہو رہا ہے۔ تبھی تو ریاستی ادارے جیئند و شیرباز سمیت تمام تر بلوچ مزاحمتی قیادت کے خلاف پاگلوں کی طرح پڑے ہوئے ہیں۔ ریاست ہر کسی کو لاپتہ کرنا چاہتی ہے، ہر بلوچ کو قتل کرنا چاہتی ہے۔

مگر یہ حکمرانوں کی بھول ہے کہ وہ بلوچ مزاحمتی قیادت کو ان اذیتوں اور استعماری حربوں سے ڈرا پائیں گے۔ ارے کم بختو! یہ تو وہ وطن زادے و وطن زادیاں ہیں جو جان ہتھیلی پر رکھ کر وطن وطن کا ورد کیے برسوں سے تمہارے نوآبادیاتی مظالم کے خلاف شعوری طور پر میدانِ جہد میں ہیں۔ انہوں نے اپنی جان اور اپنی ہر ہر سانس فکری طور پر وطن کے نام کر دی ہے۔ اب انہیں ڈرانا یا پھر خوفزدہ کرنا کسی بھی قبضہ گیر کےلیے ناممکن بن چکا ہے۔

یہ وہ عشاق ہیں جو بار بار تمہارے زندانوں کو اپنے پاک پوتر پیروں تلے روندنے کےلیے تیار ہیں۔ بھائی، بہن بچے بھی قربان کرنے کو تیار ہیں۔

بھلا تم جیئند بلوچ کو کیسے خوفزدہ کر پاؤگے، وہ تو پہلے ہی قریب ایک سال لاپتہ ہو کر تمہارے عقوبت خانوں میں جبر و اذیت سہہ کر خوف اور موت کو شکست دے چکا ہے۔ یہ وہ جیئند ہے جس کے والد اور بھائی بھی لاپتہ کیے جا چکے ہیں۔ یہ وہ جیئند ہے جس کا ایک بھائی گزشتہ چھ سے سالوں سے تمہارے زندان میں اذیتیں سہہ رہا ہے۔ یہ وہ جیئند و شیرباز ہیں جو اپنی سیاسی مزاحمتی جدوجہد کے دوران درجنوں بار گرفتار ہو کے تمہاری جیلوں کو شرف بخش چکے ہیں۔ اب تم انہیں پھر لاپتہ کرکے کیسے خوفزدہ کر پاؤگے بھلا؟

اگر بلوچ لاپتہ ہونے، قتل ہونے، بھوک و پیاس سہنے سے ڈر جاتا؛ وطن کے واک و اختیار سے ہاتھ اٹھاتا تو وہ بہت پہلے یہ کر چکا ہوتا۔ وہ ہزاروں مسخ شدہ لاشوں، ہزاروں سپوتوں کی قربانی دے کر بھی مسلسل وطن وطن نہیں کر رہا ہوتا۔

بلوچ راجی مُچی (بلوچ قومی اجتماع) تمہارے ہزاروں نوآبادیاتی حربوں، ظلم و سفاکیت کی نت نئی داستان رقم کرنے اور جیئند و شیرباز سمیت سینکڑوں بلوچ قیادت و کارکنان کو لاپتہ کرنے کے باوجود کامیاب ہوچکا ہے اور یہ بلوچ مزاحمتی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کر چکا ہے۔ اب اسے نہ جیئند و شیرباز بلوچ کے لاپتہ ہونے سے فرق پڑے گا اور نہ ہی سمّی و ماہرنگ کی گرفتاری سے۔ اب یہ مزاحمتی لہر تمہیں نیست و نابود کرنے اور ظلم و ستم کی تمام داستان ختم کرنے تک جاری رہے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔