بلوچستان مظاہرے: پاکستان کا ایران اور افغانستان سے زمینی رابطہ منقطع، تجارت ٹھپ ہوکر رہ گئی

233

پرامن اجتماع پر فورسز کی کریک ڈاؤن کے بعد بلوچستان میں احتجاج میں مزید شدت، کئی اہم شاہراہیں اور شہر بند ہیں-

بلوچستان میں حکومت اور فورسز کے خلاف مظاہروں میں مسلسل اضافے کے باعث اس وقت شدید تجارت تعطل کا شکار ہے۔

صوبائی حکومت، پاکستانی فورسز اور بلوچ یکجہتی کمیٹی جلسے کے شرکاء میں بدامنی اس وقت شدت اختیار کر گئی جب حکام نے ایک پرامن اجتماع کے خلاف طاقت کا استعمال کیا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق، پولیس اور نیم فوجی دستوں بشمول فرنٹیئر کور نے کریک ڈاؤن کے دوران گوادر بلوچ راجی جلسے میں شرکت کے لئے آنے والے درجنوں افراد کو گرفتار کیا اور تشدد سے متعدد شرکاء زخمی ہوگئے۔-

چھ روز سے جاری ان احتجاجی مظاہروں کی کال بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے دیئے گئے ہیں اور بی وائی سی کے مطالبات میں پرامن جلسوں کے خلاف طاقت کے استعمال کو روکنا، حراست میں لیے گئے کارکنوں کی رہائی شامل ہے۔

مظاہرین کے باعث دارالحکومت کوئٹہ سمیت بلوچستان کی کئی اہم شاہراہیں اور شہر بند ہوکر رہ گئے ہیں-

اس دوران مظاہرین نے اہم شاہراہوں پر ریلوے ٹریکس کو بھی بلاک کر رکھا ہے، جن میں بلوچستان کو دوسرے علاقوں اور پڑوسی ممالک ایران اور افغانستان سے ملانے والے راستے بھی شامل ہیں جس کی وجہ سے تجارت اور سفر میں نمایاں تعطل پیدا ہوچکی ہے، متعدد گاڑیاں، بشمول ساز سامان اور زائرین لے جانے والی گاڑیاں، سرحدوں پر پھنس کر رہ گئے جس کے باعث بین الاقوامی کاروبار بھی شدید متاثر ہوا ہے-

بی وائی سی نے حکومت کو تنبیہ کیا ہے کہ اگر حکومت نے پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال جاری رکھا تو وہ اپنی احتجاجوں میں مزید تیزی لائیں گے، جس سے ممکنہ طور پر بلوچستان مکمل طور پر بند ہو جائے گا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے حکومت کے سامنے اپنے مطالبات بھی پیش کئے ہیں جن میں تمام تر راستوں کو کھولنا اور انکے گرفتار ساتھیوں کی رہائی شامل ہے-

انسانی حقوق کی تنظیموں، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومین رائٹس واچ سمیت دیگر تنظیموں نے ریاست کے پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال، مظاہرین پر حملوں اور گرفتاریوں کی مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ حکومت پرامن مظاہرین پر طاقت کا استعمال روک کر شہروں میں انٹرنیٹ اور موبائل سروسز فوری طور پر بحال کرے-