ریاستی جبر کے خلاف عوامی مزاحمت ۔ اسلم آزاد

158

ریاستی جبر کے خلاف عوامی مزاحمت

تحریر: اسلم آزاد
دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے 28 جولائی 2024 کو گوادر میں بلوچ راج مچی (بلوچ قومی اجتماع) کے انعقاد کا اعلان کیا۔ اس مچی کا مقصد بلوچستان کے کونے کونے سے لوگوں کو اکٹھا کرنا تھا تاکہ جاری ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کی جاسکے۔ جیسے جیسے تاریخ قریب آئی، پورے بلوچستان سے لوگوں نے گوادر کی طرف اپنا سفر شروع کر دیا۔ ریاستی اداروں کی طرف سے بڑھتی ہوئی پابندیوں کے باوجود اس اہم اجتماع میں شرکت کا عزم کیا۔

بلوچ راج مچی کو ناکام بنانے کے لیے ریاست نے اپنی پوری مشینری تعینات کر دی۔ پورے بلوچستان میں غیر اعلانیہ مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ اس میں مواصلاتی نظام کی معطلی، انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسز کو غیر فعال کرنا اور ریلی و جلوس کو روکنے کی جارحانہ کوشش میں ریاستی فورسز نے تربت، گوادر، مستونگ اور اتھل زیرو پوائنٹ سمیت متعدد مقامات پر راجی مچی کے قافلوں پر براہ راست فائرنگ کی۔

اطلاعات کے مطابق مختلف علاقوں میں فائرنگ کے نتیجے میں متعدد کارکن شہید اور زخمی ہوئے۔ زخمیوں کو علاج کے لیے گوادر، تربت، مستونگ اور کوئٹہ کے اسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔ مختلف ویڈیوز منظر عام پر آئی ہیں جن میں پاکستانی فوجی اہلکاروں کو شرکاء کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے بسوں سمیت مختلف گاڑیوں کے ٹائروں پر فائرنگ کر رہے ہیں۔ یہ بھی خبر آرہی ہے کہ شرکاء میں سے بلوچ نوجوانوں کو سامراجی فوج جبری گمشدہ بھی کر رہے ہیں۔

ان جابرانہ اقدامات کے درمیان بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ مہرنگ بلوچ نے بلوچ قوم کو ایک پُرعزم پیغام پہنچاتے ہوئے ان پر زور دیا کہ جہاں بھی رکاوٹیں پیش آئیں وہاں دھرنا دیں۔ جس کے بعد بلوچستان کے کم و بیش تمام اضلاع میں دھرنے جارہی ہے۔

پرامن احتجاج ہر شہری کا بنیادی حق ہے، جسکی اجازات پاکستانی آئین اور قوانین میں درج ہے۔ تاہم پاکستانی ریاست نے مختلف غیر قانونی طریقے سے بلوچ عوام سے احتجاج اور دھرنا دینے کا حق چھین لیا ہے۔ پنجابی فوج نے بی وائی سی کے قیادت و کارکنوں کے خلاف سخت سے سخت کریک ڈاؤن شروع کیا ہے۔طاقت کے وحشیانہ استعمال سے صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے۔ جس سے لوگوں میں ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف شدید ناراضگی اور نفرت بڑھے گی۔ جس کے ریاست اور بلوچستان کے عوام دونوں کے لیے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔

گزشتہ 76 سالوں سے ریاستی ادارے بلوچستان کے ساحل و وسائل کو بے رحمی سے لوٹ رہے ہیں۔ مقامی آبادی کو خاموش کرنے کے لیے طاقت کا مسلسل استعمال، تشدد اور جھوٹے پروپیگنڈے سے اینگیج کررہے ہیں۔ اس لاتعداد جبر کے نتیجے میں بلوچستان بھر کے ہر بچے، بڑے اور نوجوان کے دل و دماغ سے ریاستی اداروں کو مزاحمت کررہی ہے۔ ان جابرانہ اقدامات کے باوجود ریاستی ادارے اپنی استعماری پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے بجائے بلوچ عوام کو کچلنے کے لیے نت نئے حربے استعمال کرتے رہتے ہیں۔

پاکستانی ریاست کے استحصال نے بلوچستان میں جاری شورش کو مزید تیز کر دیا ہے۔ بلوچ مزاحمتی تحریک کو دبانے کے لیے سامراج ریاست کی جانب سے تشدد کے بے رحمانہ استعمال کے باوجود قومی تحریک مزید فعال، منظم اور موثر ہوتی جارہی ہے۔ بلوچستان کے سیاسی طور پر باشعور عوام کو مزاحمت کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا، کیونکہ پاکستانی پارلیمنٹ و بلوچستان کے کٹھ پُتلی حکومت بلوچ و بلوچستان کے لیے نہیں یہ صرف اور صرف پنجابی سامراج کی مفادات کا تحفظ کررہا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی بلوچستان میں نسل کشی اور وسائل کی لوٹ مار کے خلاف آئینی، قانونی، جمہوری اور پرامن جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ کمیٹی کا موقف ہے کہ گوادر میں بلوچ مچی کا مقصد پاکستانی ریاست کی جانب سے نسل کشی کی پالیسیوں، استحصالی نظام، قومی شناخت، جبری گمشدگیوں اور غیر انسانی تشدد کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا ہے۔ اس پرامن اجتماع کا مقصد انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور بلوچ عوام کے خلاف استعمال ہونے والے جابرانہ ہتھکنڈوں کو اجاگر کرنا تھا۔

اب تک گوادر میں کرفیو نافذ ہے۔ شہر میں داخلی اور خارجی راستے بند کر دیے گئے ہیں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے عوامی تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے مختلف غیر فطری اور غیر جمہوری حربے استعمال کررہے ہیں۔ یہ اقدامات ظلم و ستم کے ایک دیرینہ نمونے کی عکاسی کرتے ہیں، سامراج ریاست ہمیشہ طاقت و تشدد کی مدد سے مقامی لوگوں پر حکمرانی کرنا چاہتی ہے کیونکہ کے ظالم اور مظلوم کے درمیان جو رشتہ ہے وہ تشدد کا ہے، اگر ریاست دو دن تشدد (بندوق) بند کرے تیسرے دن ریاست کی بنیادی ڈھانچہ خطرہ میں پڑ جاتی ہے۔

1948 سے لے کر آج تک پاکستانی ریاست نے بلوچ عوام کے سیاسی، سماجی، معاشی اور ثقافتی حقوق غصب کیے ہیں۔ سامراج ریاست بلوچستان کے حوالے سے واحد استعماری پالیسی پر کاربند ہے جس کا مقصد بلوچ قوم کی نسل کشی، بلوچستان کی معدنیات کی لوٹ مار اور عوام کو آپس میں تقسیم کرنا ہے۔ جو لوگ اپنی حق و انصاف و ازادی کے لیے آواز اٹھانے کی ہمت کرتے ہیں انہیں جبری گمشدگیوں، خفیہ خانوں میں غیر انسانی تشدد اور ان کی مسخ شدہ لاشوں کو عوام میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے پھینک دیا جاتا ہے۔

تاہم ریاست کی یہ غلط فہمی ہے کہ وہ ہمیشہ مسخ شدہ لاشوں اور خوف کے ذریعے لوگوں کا استحصال کر کے انہیں نفسیاتی طور پر کنٹرول کر سکتی ہے۔ بلوچ قوم اب باشعور ہو چکی ہے۔ مسخ شدہ لاشوں اور شہداء کے خون کو مسلسل دیکھنے کے بعد ان کے دل و دماغ سے موت کا خوف ختم ہو گیا ہے۔ وہ پوری طرح سمجھتے ہیں کہ موت ایک فطری عمل ہے، اور پاکستان ایک غیر فطری ریاست ہے۔ انہوں نے موت سے ڈرنے کی بجائے اسے گلے لگانے کا انتخاب کیا ہے۔ غلامی سے بڑی کوئی موت نہیں اور آگاہی موت کے خوف کو ختم کر دیتی ہے۔

اب بلوچ قوم کو یہ پورا احساس ہو گیا ہے کہ وہ پاکستانی ریاست کے غلام ہیں۔ پاکستان ان کے وسائل کا استحصال کرتا ہے، ان سے ہتھیار خریدتا ہے، اور پھر انہیں مارنے کے لیے انہی ہتھیاروں کا استعمال کرتا ہے۔ اگر ریاست ان کے خلاف نسل کشی کرنے پر بضد ہے تو ڈرنے کی کیا بات ہے؟ اب ہر بلوچ بچہ جانتا ہے کہ وہ ریاستی خوف کی وجہ سے ذہنی طور پر غلام بنائے گئے تھے۔ ریاست نے ان کو لوٹنے کے لیے ان کے خوف کا فائدہ اٹھایا۔ اب موت کے خوف سے وہ مصنوعی ریاست کی غلامی قبول نہیں کرتے۔ وہ پاکستان کے غلام ہونے پر موت کو ترجیح دیتے ہیں۔ بلوچ قوم نے اپنے ذہنوں سے ریاست کا خوف نکال دیا ہے اور وہ آزاد اور خودمختار انسان کے حثیت سے مزاحمتی تحریک میں شامل ہو رہے ہیں۔

آمن و امان کے نام پر پورے بلوچستان کو سیکورٹی زون میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں لوگوں سے صرف اور صرف بندوق کی زبان پر نمٹا جاتا ہے۔ پچھلے 76 سالوں میں بلوچوں کو ترقی اور خوشحالی کے نام پر اپنے پیاروں کی لاشوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ اس منظم تشدد نے بلوچ قوم کے حقوق، انصاف اور آزادی کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کے عزم کو مزید تقویت بخشی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔