راجی مچی پر ریاستی جبر – ٹی بی پی اداریہ

264

راجی مچی پر ریاستی جبر

ٹی بی پی اداریہ

پاکستان کی مقتدر قوتیں بارہا بلوچ قومی آزادی کے لئے برسرپیکار جہدکاروں کو مذاکرات کی دعوت دے کر انہیں پُرامن جدوجہد کی تلقین کرتے رہتے ہیں، لیکن بلوچستان میں جو تنظیمیں پُرامن جدوجہد پر یقین رکھ کر سیاسی مزاحمت کے زریعے اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کررہے ہیں، ریاست طاقت کے زریعے اُن کی سیاست پر قدغن لگا رہا ہے۔

بلوچ راجی مچی پر ریاستی طاقت کے سفاکانک استعمال کے حوالے سے جِن خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا، وہ سچ ثابت ہوا اور حسب روایت ریاستی اداروں نے جبر کے ذریعے بلوچ راجی مچی کو روکنے کی کوششیں کیں، بلوچستان کے سارے شاہراؤں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے چار دنوں سے راستے بند کئے گئے، لوگوں پر لاٹھی چارج اور شیلنگ جاری ہے، راجی مچی کے شرکاء پر بلوچستان کے مختلف مقامات پر براہ راست فائرنگ کی گئی، جس میں درجنوں لوگ زخمی اور کئی افراد جانبحق ہوئے ہیں۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی اور دوسرے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور سینکڑوں کارکنان کو جبری گمشدہ اور گرفتار کیا گیا ہے، جو اب بھی پابند سلاسل ہیں، جِن کے بازیابی کے لئے بلوچستان بھر میں دھرنے اور احتجاج جاری ہیں۔

بلوچستان کے متنازعہ حکومت اور پاکستانی فوج کے ترجمان سلگتے مسائل کو حل کرنے کے بجائے طاقت کے استعمال کو جواز فراہم کررہے ہیں، جس کے سبب حالات انتہائی کشیدگی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطالبات پورے کرکے حالات کو معمول پر لانے کے بجائے اُن کی قیادت کو قتل کرنے کی کوشش کیا جارہی ہے۔ جس کے پختہ ثبوت ملٹری انٹیلجنس کے ایک مبینہ ٹارگٹ کلر کی پکڑے جانے کے بعد اعتراف جرم ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے قائدین بلوچ قومی حقوق کے لئے پُرامن جدوجہد کررہے ہیں، اُن کے قتل کرنے کی کوششیں بلوچستان کی سلگتی آگ میں تیل ڈالنے کے مترادف ہے۔ ریاستی اداروں کی سیاسی اجتماعات پر طاقت کا استعمال بلوچستان کی سیاست کو تشدد کے جانب دھکیل رہا ہے اور مقتدر قوتوں کی اِن اقدامات سے بلوچستان کے پہلے سے مخدوش حالات مزید ابتری کی جانب بڑھ رہی ہیں، جس کی زمہ داری ریاستی اداروں پر عائد ہوگی۔

بلوچ راجی مچی کی صورت میں جہاں گوادر میں ایک روزہ جلسہ ہونا مقصود تھا، اسے ریاستی اداروں کی اندھا دھند طاقت کے استعمال نے ایک تحریک بنادیا ہے، جس نے پورے بلوچستان میں غم و غصے کی ایک نئی لہر جنم دی ہے، جس کے دور رس اثرات یقیناً سخت گیر ریاست مخالف جذبات کی صورت میں دیکھنے کو ملیں گی۔