بلوچ نیشنل موومٹ کے سابق چیئرمین خلیل بلوچ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بلوچ قوم گوادر میں “راجی مُچی” کے عنوان سے ایک تاریخی اجتماع کے ذریعے پاکستانی فوج کے ہاتھوں ہزاروں نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہی ہے۔ گوادر میں ہونے والے اس بڑے اجتماع میں بلوچ عوام نے اپنی آواز اٹھانے کا عزم کیا ہے، جو کسی بھی قوم کا بنیادی انسانی اور قومی حق ہے۔ بلوچ لواحقین پاکستان سے کسی اضافی مراعت یا نامنصفانہ مطالبہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ اپنے پیاروں کے لیے بنیادی انسانی حقوق اور پاکستان کے اپنے آئین و قانون کے مطابق انصاف کا تقاضا کر رہے ہیں۔ لیکن پاکستانی فوج اور دوسرے عسکری ادارے اس اجتماع کو روکنے کے لیے طاقت کا وحشیانہ استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے طول و عرض سے گوادر کی طرف رواں دواں قافلوں کو روکنے کے لیے پاکستانی فوج نے جابرانہ اور جنگی جرائم جیسے اقدامات شروع کیے ہیں۔ پاکستانی فوج نے نہ صرف قافلوں کو روکا ہے بلکہ ان پر براہ راست فائرنگ بھی کی ہے، جس کے نتیجے میں ایک شخص شہید اور متعدد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف انسانی حقوق بلکہ انسانی وقار اور عالمی اصولوں کی واضح پامالی ہیں۔
خلیل بلوچ کا کہنا ہے کہ میں بلوچستان میں پاکستان کی کٹھ پتلی انتظامیہ کو خبردار کرتا ہوں کہ تیزی سے اپنے منطقی انجام کی جانب رواں پاکستان کے لیے بلوچوں کے ساتھ غداری میں بھی کم از کم ایک حد تک محدود رہیں، اپنی تنخواہ حلال کریں، اور پاکستانی فوج کو سجدہ کرتے رہیں، لیکن بلوچ ماں بہنوں کی آنچل و آبرو کے ساتھ کھیل میں پنجابی کا شریک جرم نہ بنیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ مقدس سرزمین تمہارے غلیظ مردہ جسم کو بھی دو گز زمین دینا گوارا نہ کرے، وہ دن تمہارے لیے عبرت و ذلت کا دن ہوگا۔ میں کٹھ پتلیوں پر واضح کردوں کہ بلوچ ایک قوم اور پاکستان ایک بے بنیاد عسکری ریاست ہے۔ ریاستیں بنتی ٹوٹتی ہیں، لیکن قومیں نسل کشی سے ختم نہیں ہوتیں بلکہ مزید مضبوط ہوتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے جبر و وحشت کے تمام ذرائع آزمائے ہیں۔ یہ پاکستان پر بھی واضح ہو چکا ہے کہ بلوچ ایک زندہ قوم ہے اور کسی بھی زندہ قوم کو عسکری بربریت و سفاکیت سے کچلا نہیں جا سکتا۔ ان کارروائیوں سے بلوچوں کے دلوں میں پہلے سے موجود نفرت میں مزید اضافہ ہی ہوگا، یہی نفرت پاکستان کی تباہی کا باعث بنے گی۔ اب بلوچ قوم نے شعوری فیصلہ کر لیا ہے اور تمام طبقات اور خواتین قومی جدوجہد میں برابر شریک ہو چکے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے لیے بہتر یہی ہوگا کہ وہ طاقت کے استعمال کو ترک کردے کیونکہ بلوچ قوم موت کے خوف سے بہت آگے نکل چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ عوام کے احتجاج کو روکنے کے لیے جبر و تشدد پر مبنی یہ اقدامات بلوچ قوم کے حقِ احتجاج کو دبانے کی ایک اور کوشش ہوسکتی ہے، لیکن بلوچ قومی جدوجہد جاری رہے گی۔ پاکستان کی فوجی کارروائیاں اور نسل کشی ہمارے عزم کو مزید مضبوط کریں گی۔