لاپتہ بلوچوں کی بازیابی ہے لئے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5524 دن مکمل ہوگئے۔ بی ایس او پجار کے چیئرمین بوہیر صالح سینیئر وائس چیئرمین بابل ملک اور مختلف مکتنہ فکر کے مرد خواتین کیمپ آکر اظہار یکجتی کی۔
وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے مخاطب ہو کہ کہا کہ جوں جوں جبری لاپتہ افراد کی پُر امن جدوجہد میں اضافہ ہورہا ہے اسی تسلسل کے ساتھ ریاست پاکستان کی بربریت نت نئے ہتھکنڈوں میں اضافہ دیکھنے کو آرہا ہے 73 سالوں میں ہزاروں رہنماوں اور ورکروں کو لاپتہ اور شہید کیا گیا۔ یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔ ہزاروں آج بھی ریاستی زندانوں میں تشدد کا شکار ہیں ہزاروں بلوچ کارکنوں کے گھروں کو جلایا گیا لوٹ مار کی گئی اور خواتین بچوں کی حرمت کو تار تار کیا گیا وی بی ایم پی کو اس بات کا ادراک بخوبی ہے کہ ریاست کی جانب سے اس سلسلے میں کمی نہیں آئے گی اور اپنی قبضہ کو بر قرار رکھنے کےلئے وہ بلوچ قوم کی سلو جینو سائیڈ میں تیزی لائے گی لیکن بلوچ رہنماؤں کارکنوں کے قدموں میں قابض کی تمام بربریت کے با وجود لرزش نہیں آئی۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ افراد کے بجائے تنظم کو مضبوط کر کے اداروں کی تشکیل کا ذمہ بلوچ قوم کے سامنے ہے ریاستی جبر جبری اغواء شہادتوں میں ہر روز تیزی کا سلسلہ جاری ہے یہ عمل قابض مقبوضہ کے درمیان معمولی لگتی ہے لیکن بلوچیت کے دعوے دار جو آج پارلیمنٹ میں بیھٹے ہیں یا ریاستی قبضہ کا حصہ ہیں ان کے لیے سوچنے کی امر ضرور ہے نہ کہ اداروں کو تھوڑنے کی ریاست پاکستان اس کی فوج کو بلوچ ننگ وناموس بلوچ سے کوئی سروکار نہیں وہ تو صرف بلوچ زمین اس کی وسائل کا طلب گار ہے اور غلامی کی یہ سفر جتنی لمبی ہوتی جائے گی ہی طرح بلوچ ماں بہن کی ننگ ناموس کا کھلواڑ یہ ریاست کرتا رہے گا آج بلوچ قوم نے جس بہادری کے ساتھ اپنی پر امن جدجہد کو ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچا دیا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام مکاتب فکر کے لوگ اپنی تنگ ناموس لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے دشمن کی تمام چالوں کا ادراک کرتے ہوئے پرامن جدوجہد میں اپنا کردار ادا کریں دشمن کی چالوں میں نہ آہیں۔