بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں 28 جولائی کو بلوچ راجی مچی (قومی اجتماع) کی تیاریاں آخری مراحل میں ہیں۔ اس سلسلے میں بلوچستان کے مختلف علاقوں سمیت کراچی اور ڈیرہ غازی خان میں آگاہی مہم اور کارنر مینٹگ منعقد کیے گئے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کہتے ہیں کہ “ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں اور آج بھی واضح کرتے ہیں کہ راجی مچی بالکل سیاسی عمل ہے، لیکن سیاسی مقاصد اور سیاسی عمل سے زیادہ بلوچ راجی مچی بلوچیت اور انسانیت کے کرب و درد اور تکلیفوں سے بھرا ہوا وہ اذیت ناک اظہار ہے، جہاں 75 سالوں سے ریاست مختلف سازشوں اور طریقوں سے بلوچ قوم کی نسل کشی کرتی چلی آرہی ہے اور اب بلوچ نسل کشی میں ریاست مزید شدت پیدا کرنے اور وسعت دینے کا باقاعدہ فیصلہ کرچکی ہے۔”
دی بلوچستان پوسٹ نے یہ جاننے کے لئے کہ گوادر کے لوگ راجی مچی کے بارے میں کیا کہتے ہیں، وہاں کے مقامی لوگوں سے دریافت کیا۔ ماضی میں بلوچ طلباء تنظیم بی ایس او کے کارکن رہنے والے خدا بخش بلوچ نے گوادر کے قدیمی کریمک ہوٹل میں چائے کا لطف اٹھاتے ہوئے ہم سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا “سالوں بعد یہ شہر اپنا مسکن لگ رہا ہے، سالوں بعد یہاں بلوچ قومی بقا کے لئے جمع ہورہے ہیں، لوگوں پر پہرہ ہے لیکن گوادر اس ڈر اور خوف سے نکل کر قومی یکجہتی کی مثال پیش کرے گی۔”
وہ کہتے ہیں “یہاں مقامی ایجنٹوں کے ذریعے لوگوں کو ڈرایا جارہا ہے لیکن لوگ اب ان دھمکیوں سے پیچھے ہٹنے والے نہیں، اس راجی مچی میں رکاوٹیں ڈالنے کے لئے مختلف پروپیگنڈے اور مقامی انتظامیہ کو استعمال کیا جارہا ہے جو کسی صورت سرکار کے لئے مفید ثابت نہیں ہوسکتا ہے۔”
ضلعی انتظامیہ کی طرف سے چندہ مہم پر پابندی کے باوجود بازار میں لوگ چندہ جمع کررہے ہیں۔ ایک دکاندار نے دی بلوچستان پوسٹ کو بتایا کہ دکاندار سمیت ہر شخص اپنے گنجائش کے مطابق اپنا حصہ ڈال رہا ہے، ان کے مطابق یہ اجتماع اجتماعی مسائل کے حل کیلئے ایک اہم قدم ہے، تمام بلوچ مشکلات میں ہیں، ہمیں مل کر اپنے درد باٹنے ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنماء صبغت اللہ شاہ جی نے سماجی رابطوں کی سائٹ ایکس پر ایک اسپیس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ “ریاست کی بوکھلاہٹ خود بتارہی ہے کہ 28 جولائی سے پہلے ہی راجی مُچی کامیاب ہوچکی ہے، ریاستی ادارے اگر رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کریں تو کئی شہروں میں بیک وقت راجی مُچی ہوگی، بلوچ قوم کو جمہوری طریقے سے رائے دینے کا پورا حق ہے، اس سے یہ حق کوئی نہیں چھین سکتا، ریاست سیاسی جدوجہد سے کیوں گھبرا رہی ہے، اسکا مطلب صاف ہے کہ ریاستی اداروں کے پاس بلوچ قوم کے سوالوں کا جواب نہیں ہے، ریاست اگر بدمعاشی پہ اتر آتی ہے تو جواب صرف ایک ہے کہ بلوچ سے بڑا کوئی ہلاکو خان نہیں ہے، 72 سالوں سے اس ریاست نے بلوچ کی نفسیات نہیں سمجھی اور نہ ہی سمجھنے کو کوشش کی۔”
دوسری جانب بلوچ راجی مچی کو روکنے کے لئے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ضلعی انتظامیہ سرگرم ہیں۔ ضلع کیچ اور گوادر میں عوامی چندہ مہم کے خلاف نوٹیفکشن کے بعد یہ اطلاعات ہیں کہ تربت سے تعلق رکھنے والے کم از کم چھ سیاسی کارکنوں کے نام فورتھ شیڈول میں ڈالے گئے ہیں۔
حکومت بلوچستان کے محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے مطابق ضلع کیچ کے چھ سے زائد افراد کو فورتھ شیڈول میں ڈالا گیا ہے جنکی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھنے کے احکامات جاری کیئے گئے ہیں۔
فورتھ شیڈول میں ڈالے گئے افراد پر الزام عائد کیا گیا کہ ان کا تعلق بلوچ مسلح آزادی پسند تنظیم سے ہے۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ بلوچ راجی مچی کو روکنے کے لئے سرکاری سطح پر سخت اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ دوسری جانب گذشتہ روز بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں حکومتی اراکین نے راجی مچی کی مذمت کی اس دوران پیپلز پارٹی کے علی مدد جتک نے گوادر سے تعلق رکھنے والے مولانا ہدایت رحمان کے حوالے سے نازیبا الفاظ کا استعمال کیا جبکہ گوادر سے رکن بلوچستان اسمبلی مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے کہا کہ حق دو تحریک نے راجی مچی کی حمایت کی ہے اور عوام اس میں بھر پور شرکت کرینگے۔
حق دو تحریک کے رہنما حسین واڈیلہ نے کہا ہے کہ جتک ایک قابل احترام بلوچ قبیلہ ہے مگر آج علی مدد جتک نامی شخص نے نہ صرف جتک قبیلے بلکہ تمام بلوچ قبائل کی توہین کی ہے اس لئے ہم جتک قبیلے کے سرکردہ لوگوں سے گزارش کرتے ہیں کہ اس شخص کی بھرپور مذمت کریں کیونکہ جس شخص کو بلوچ قبائل کے روایات کا علم نہیں اسے خود کو بلوچ کہنے کا بھی حق نہیں۔ بلوچ عوام اس توہین کا بدلہ 28 جولائی کو ہونے والے ‘بلوچ راجی مُچی’ میں زیادہ سے زیادہ شرکت کرکے لیں۔
بلوچ راجی مُچی کی تیاریوں میں مصروف کراچی، نوالین سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے چار ارکان کو پولیس نے اس وقت گرفتار کیا جب وہ آگاہی مہم میں مصروف تھے۔ یکجہتی کمیٹی کے مطابق مذکورہ افراد کو ڈی ایس پی کلاکوٹ نے گرفتاری کے بعد پاکستانی خفیہ اداروں کے حوالے کیا جس کے بعد ان کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات نہیں۔
مزید برآں واشک سے اجتماع کی تیاریوں کی سلسلے میں چندہ جمع کرنے والے یکجہتی کمیٹی کے ارکان کو پولیس نے گرفتار کیا جس کے بعد واقعے کے خلاف احتجاجاً شاہراہ کو بند کردیا گیا۔
جبکہ حب چوکی میں اجتماع کے آگاہی مہم کے سلسلے میں پروگرام منعقد کرنے کی پاداش میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء سمی دین بلوچ اور جبری لاپتہ راشد حسین کی بھتیجی ماہ زیب سمیت دیگر افراد کے خلاف ایف آئی درج کی گئی ہے۔
بلوچ راجی مُچی اپنے نوعیت کا ایک بڑا اجتماع تصور کیا جارہا ہے جس میں بہت بڑی تعداد میں نہ صرف بلوچستان بھر سے بلکہ دیگر علاقوں سے بھی بڑی تعداد میں لوگوں کے شریک ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔ سیاسی و سماجی حلقے اس اجتماع کو شورش زدہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف ایک ریفرنڈم قرار دے رہے ہیں تاہم دوسری جانب حکومتی وزراء و حکام کی جانب سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ارکان کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات کو نفرت میں مزید اضافے کا سبب قرار دے رہے ہیں۔