مذاکرات کس سے؟ – ٹی بی پی اداریہ

349

مذاکرات کس سے؟

ٹی بی پی اداریہ

بلوچستان کے متنازعہ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بلوچستان کی آزادی کے لئے برسرپیکار مزاحمتی قوتوں سے مذاکرات کے ذریعے امن کا ماحول قائم کرنے کے قائل ہیں، لیکن اسی انٹرویو کے دوران، وہ بلوچستان میں پرتشدد حالات کو ریاستی پالیسیوں کے بجائے بلوچ مسلح تنظیموں سے منسلک کرکے بلوچ تحریک کو طاقت کے ذریعے ختم کرنے کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف بلوچ قوم پرست حلقے یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ سرفراز بگٹی از خود ایک مسلح ڈیتھ اسکواڈ کے سربراہ ہیں اور بلوچستان میں تشدد کو ہوا دینے میں انکا عملی کردار ہے۔

اکیسوی صدی کے آغاز میں فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے فوجی آپریشن کا آغاز کرکے بلوچستان کو کشت و خون اور جنگ میں دھکیل دیا، جس کے بعد آنے والے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے حکومتوں نے بلوچ قوم سے ماضی کی ناانصافیوں پر معافی مانگ کر بلوچ مسئلے کے پرامن تصفیے کے لئے مذاکرات کا عندیہ دیا، لیکن اِن حکومتوں میں بھی بلوچستان میں فوجی آپریشن جاری رہے، ہزاروں لوگ جبری گمشدگی کا نشانہ بنائے گئے، سینکڑوں جبری گمشدہ افراد کی تشدد زدہ لاشیں ملیں اور کئی لاپتہ افراد گمنام قبروں میں دفنائے گئے، سینکڑوں جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کردیے گئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

بلوچستان کے معروضی حالات سے واقف سیاست دان اور دانشور بارہا اظہار کرچکے ہیں کہ بلوچستان کے فیصلے عملی طور پر پاکستانی فوج کے ایماء پر کئے جاتے ہیں اور فوج کی مرضی ومنشاء کے بغیر بلوچ مسئلہ پر مذاکرات، بلوچستان کے متنازعہ حکومت و وزیر اعلیٰ کے اختیار میں نہیں ہے۔

بلوچستان میں مذاکرات کے لئے سازگار ماحول بنائے بغیر اور بلوچ قوم پر ریاستی جبر کو ختم کئے بغیر مذاکرات ناممکن نظر آتے ہیں۔ غیر سنجیدہ بیانات اور طاقت کے استعمال سے مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔

دوسری طرف بلوچ آزادی پسند مسلح و غیرمسلح تنظیمیں مذاکرات کے موضوع پر بارہا یہ واضح کرتے آئے ہیں کہ وہ بلوچستان کی حکومت کو ایک کٹھ پتلی حکومت مانتے ہیں، اور وہ مذاکرات، براہ راست پاکستانی فوج سے عالمی ثالثوں کی موجودگی میں، محض بلوچستان کی آزادی کے ایجنڈے پر ہی کریں گے۔