تشدد زدہ بلوچستان – ٹی بی پی اداریہ

113

تشدد زدہ بلوچستان

ٹی بی پی اداریہ

المناکیوں سے نبرآزما بلوچستان، جہاں روز ریاستی اداروں کی جانب سے ایسے واقعات وقوع پزیر ہو رہے ہیں، جس سے پورا بلوچ سماج متاثر ہورہا ہے۔ گیارہ جون کو زہیر بلوچ کی بازیابی کے لئے سریاب روڈ کوئٹہ سے نکلی ریلی پر پولیس نے فائرنگ اور شیلنگ کرکے کئی افراد زخمی کر دیے اور مظاہرین پر شدید تشدد کرکے خواتین سمیت سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار کرلیا گیا۔

بلوچستان میں پاکستان پیپلز پارٹی برسراقتدار ہے، پارٹی کے قائدین بلوچستان کا مسلسل دورہ کرکے مفاہمت کی سیاست کرنے کا اظہار کررہے ہیں اور پی پی پی کے چئرمین ؤ صدر پاکستان آصف علی زرداری بلوچ مسئلے کو پُر امن اور مصالحت کے ذریعے حل کرنے کی وکالت کرتے ہیں لیکن جبری گمشدہ افراد کے لئے سراپا احتجاج بلوچ خواتین پر تشدد اور گرفتاری سے واضح ہے کہ حکومتی دعوؤں اور اعمال میں واضح تضاد ہے ۔

ریاست کے پالیسی ساز ادارے سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اجتماعی سزا کی پالیسی سے وہ بلوچ مزاحمت پر اثرانداز نہیں ہوسکتے ہیں۔ بلوچستان میں دو دہائیوں سے زائد جبر کے ذریعے بلوچ مزاحمت کو ختم کرنے کی پالیسی نافذ ہے لیکن بلوچ قومی ادارے سخت مشکلات میں بھی آزادی کی تحریک کو منظم شکل میں جاری رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔

بلوچستان کے متنازعہ حکومت کی غیر سنجیدہ اقدامات اور پرُامن تحریک کو جبر ؤ تشدد کے زریعے ختم کرنے کی پالیسی، بلوچستان میں حالات کے سلگنے کا سبب بنیں گے اور بلوچ خواتین پر تشدد کرکے بلوچستان میں امن کا خواب دیکھنا معروضی حالات سے چشم پوشی ہے۔ ریاست کی ایسی پالیسیوں سے اجتماعےلی سزا ؤ جبر کے خلاف تحریک مزید شدت کے ساتھ ابھرے گی۔