جبری لاپتہ ظہیر احمد کی باحفاظت بازیابی کے لیے انکے اہلخانہ کی جانب سے سیشن کورٹ سریاب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی اور بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے دھرنا دے کر احتجاج ریکارڈ کرایا گیا ۔
احتجاجی ریلی میں لاپتہ افراد کے اہلخانہ اور طلبا تنظیموں، سیاسی پارٹیوں سمیت مختلف طبقہ فکر کے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
شرکا نے ہاتھوں میں لاپتہ افراد کی تصاویر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنانے اور جبری گمشدگیوں کے روک تھام کے مطالبات درج تھے ۔
احتجاجی ریلی کے شرکا سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ اور ہمشیرہ ظہیر احمد سمیت دیگر لاپتہ افراد کے اہلخانہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ظہیر احمد کو 27 جون کو کوئٹہ سے غیر قانونی حراست میں لینے کے بعد جبری لاپتہ کردیا گیا اور انکے خاندان گزشتہ چھ دنوں سے سیشن کورٹ کے سامنے دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ صوبائی حکومت کی طرف سے کسی نے بھی ان رابطہ نہیں کیا ہے۔
مقررین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ظہیر احمد کے فیملی کے احتجاج کا نوٹس لے کر ان سے بامقصد مذاکرات کرے اور ظہیر احمد کی باحفاظت بازیابی کو یقینی بنائے ۔
مقررین کا مزید کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے اہلخانہ اپنے پیاروں کی عدم بازیابی کی وجہ سے شدید ذہنی کرب و اذیت میں مبتلا ہے یہ ریاست کی آئینی اور اخلاقی ذمے داری ہے کہ وہ لاپتہ افراد کے اہلخانہ کو اذیت دینے کے بجائے انہیں ملکی قوانین کے تحت انصاف فراہم کرکے انہیں زندگی بھر کی کرب و اذیت سے نجات دلائے۔