احتجاجی دھرنے – ٹی بی پی اداریہ

86

احتجاجی دھرنے

ٹی بی پی اداریہ

بلوچستان میں ہر گزرتے دن کے ساتھ جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے احتجاجی دھرنوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بلیدہ سے جبری گمشدہ افراد کے لواحقین دوسری بار تربت میں ڈپٹی کمشنر آفس کے سامنے دھرنا دے رہے ہیں اور بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ کا اہم ترین شاہراہ سریاب روڈ چھ دنوں سے بند ہے، جہاں زہیر بلوچ کی بازیابی کے لئے اُن کا خاندان دھرنے پر بیٹھا ہواہے۔

پاکستان کی عدالتیں انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں، بلوچ طلباء کی بازیابی کیس کی اسلام آباد ہائی کورٹ میں دو سال سے سنوائی ہورہی ہے، جبری گمشدہ طلباء بازیاب نہ ہوسکے ہیں جبکہ پنجاب سے اب بھی طلباء کی جبری گمشدگیاں جاری ہے۔

بہاوالدین زکریہ یونیورسٹی کے طالب علم انیس بلوچ کو جبری گمشدگی کے بعد پولیس کے تحویل میں دیا گیا ہے لیکن اُن کے خاندان اور وکلا کو اُن تک رسائی نہیں دی جارہی ہے، قانونی تقاضے پورے کرنے کے باجود ریاستی اداروں کی اپنے عدالتوں کے احکامات کی پاسداری نہ کرنے کے سبب، لوگوں کا اعتماد عدلیہ و انتظامیہ سے اٹھ چکا ہے اور جبری گمشدہ افراد کے بازیابی کے لئے احتجاج ہی واحد راستہ بن چکا ہے۔

بلوچستان کی متنازعہ حکومت کے وزرا جبری گمشدگی کےسنگین مسئلے کو حل کرنے کے بجائے اپنے بیانات سے جبری گمشدہ افراد کو مسلح جدوجہد سے جوڑ رہے ہیں، جو حقائق کے منافی ہے۔ متنازعہ حکومت کی یہی روش اگر برقرار رہی تو مستقبل قریب میں جبری گمشدہ افراد کے لواحقین کے احتجاج اور دھرنے بلوچستان بھر میں بڑے پیمانے پر جاری رہیں گے۔