25 جون معرکہ دودکی
تحریر: دینار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
سرداری شہر وڈھ سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع دُودکی نامی گاٶں کے ایک پہاڑی ٹیلے پر بیٹھے ایک کمانڈر کا اپنے ساتھیوں سے آخری گفتگو۔
سنگتو! ہم لوگ ہمیشہ دعا مانگتے رہتے ہیں کہ ہمیں شہادت کی موت نصیب ہو تیاری کرو اب وہ وقت آن پہنچا ہے۔“
یہ بات عیاں ہے کہ بلوچ قوم زمانہ قدیم کی نسبت آج بہت تعلیم یافتہ اور لکھنا پڑھنا جانتا ہے۔ پرانے زمانے میں بلوچ قوم اعلٰی تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے اپنے شہیدوں اور غازیوں کی تاریخ کو یاد رکھنے اور نٸی نسل تک پہنچانے کےلیۓ نظم اور شاعری کا سہارا لیتے لیکن اپنے شہیدوں کو کبھی بھولتے نہیں تھے۔ آج بھی بلوچ قوم کے ایسے بہت سارے ہیروز ہیں جن پہ کتاب نہیں کتابیں لکھی جاسکتی ہیں لیکن افسوس کہ آج ہمیں انکی حالات زندگی ، میدانِ جنگ میں ان کی مہارت ، ان کی شجاعت اور بہادری کی داستانیں سننے کیلۓ ہمیں پرانے وقتوں کی انہی شاعری اور نظموں کو ڈھونڈنا پڑرہا ہے۔ آج میں جس عظیم ہستی کے بارے میں لکھنے جارہا ہوں اس عظیم ہستی کے بارے میں بھی تحاریر بہت کم ملتا ہے۔
بلوچ سرزمین ہو یا اُس کے سپوت تاریخ گواہ ہے کہ قبضہ گیر کو نہ کبھی معاف کرتے ہیں نہ کہ برداشت چاہے وہ انگریز ہو یا سکندر یا کوٸی اور ہمیشہ بھوکے ، پیاسے بھاگنے پہ مجبور ہوگۓ ہیں ۔ کیونکہ بلوچستان کی موسمیں ہو یا سنگلاخ پہاڑ ہمیشہ قبضہ گیر پہ قہر بن کے ٹوٹتے ہیں اور ایک شفیق ماں کی طرح اپنے محافظ بلوچ فرزند کو اپنی بانہوں میں لے کر پناہ دیتے ہیں۔ بلوچ قوم کم وساٸل ہونے کے باوجود گوریلا جنگ لڑکر اپنے سے کٸ گُنا زیادہ طاقتور دشمن کو ناکوچنے چبوایا ہے یا لڑکر جام شہادت نوش کیا ہے لیکن وطن اور قوم پر کوٸی سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔
آج ہم جس شخص کے بارے میں بات کرنے جارہے ہیں وہ ایک شخص نہیں بلکہ ایک کردار ہے۔ ”نورا مینگل“۔
نور محمد عرف نورا مینگل جھلاوان کے علاقے وڈھ لوپ کے رہاٸشی ، میر حمزہ مینگل کے بیٹے اور میر گہرام کے چچازاد بھاٸی تھے۔ نورا مینگل انگریزوں کی چالیں سمجھنے اور ہتھیار چلانے میں مہارت حاصل کرنے کی غرض سے فوج میں شامل ہوۓ اور باٸیس سال کی عمر میں وڈھ لیویز تھانے کا دفعدار مقرر کیا گیا۔ اور اسی سال جب سردار نورالدین اور اس کے والد شکر خان مینگل کو انگریز حکومت نے گرفتار کیا تو نورا مینگل اپنے ساتھیوں میر گہرام حملزٸی ، حسین خان گمشادزٸی ، لعل خان گمشادزٸی ، پیارا گمشادزٸی سمیت انگریز سرکار کے خلاف گوریلا جنگ شروع کی ان دنوں نورا مینگل رمضانزٸی اور دینارزٸی قبیلے کے ساتھ رہتے زیادہ تر پہاڑوں میں پناہ لے کرانگریزوں پر حملےکرتے جوکہ 1908 سے 1921 تک جاری رہیں ۔ 25 جون 1916 کو سب سے بڑی جنگ لڑی گٸی جو کہ ”معرکہ دودکی “ کے نام سے مشہور ہے کیونکہ یہ جنگ دودکی کے مقام پر لڑی گٸ ۔
کہا جاتا ہے کہ نورا مینگل انتہاٸی خاموش مزاج کے مالک تھے ۔۔۔۔ مگر میدانِ جنگ میں یکسر بدل جاتے ۔۔۔۔ہشاش بشاش رہتے ۔۔۔۔۔ہنسی مذاق کرتے۔
یہ 8 مارچ 1916 کا دن ہے خضدار سے چند کلو میٹر کی مسافت پہ زیدی میں واقع پیر شاہ کمال کے مزار پہ بیٹھے چند بلوچ سرداران ایک دوسرے سے حلف لے رہیں۔۔۔۔۔۔وعدے کر رہیں ہیں ۔۔۔۔۔کوٸی زاتی مفاد کی خاطر نہیں بلکہ اپنے دین اور اپنے وطن کو انگریزوں سے بچانے کی خاطر۔ اس معاہدے میں سردار نورالدین مینگل ، سردار حبیب اللہ نوشیروانی ، سردار رسول بخش (جو زیدی میں ساسولی قبیلہ کے سردار تھے) ، میر خان محمد گرگناڑی ، میر شیر علی گرگناڑی ، میر جمعہ خان شاہی زٸی ، میر علم خان شاہی زٸی ، میر جنگی خان پہلوان زٸی ان کے علاوہ مینگل قباٸل کے مختلف سربراہان موجود تھے۔ اس معاہد کے مطابق انگریز جس جگہ پیش قدمی کرے گی باقی بلوچ قباٸل بھی اسی طرف لشکر لیکر پہنچیں گے اور دوسرے قباٸل کی مدد کر کے انگریز کو روکیں گے۔بعد میں سب ساتھی اس معاہدے سے مقر گۓ ماسواۓ نورالدین مینگل کے جو آخری دم تک اپنے اقرار پر قاٸم رہے۔
اس معاہدے کے بعد نورا مینگل جب وڈھ پہنچے تو انگریزوں کے خلاف مسلح بغاوت شروع کی ، میر گہرام کا ماننا تھا کہ جب تک انگریز وڈھ کی طرف مارچ نہیں کرتے ہمیں خاموش رہنا چاہیۓ مگر نورا مینگل میر گہرام کے منع کرنے کے باوجود خضدار تھانے پر حملہ کردیۓ اس حملے کے نتیجے میں دو سپاہی زخمی ہوۓ باقی بھاگ نکلے اور نورا مینگل نے تمام اسلحہ اپنے قبضے میں لے لیا۔ جیسے موجودہ دور میں ایسے کٸ نواب ، میر ، سردار چند پیسوں کی خاطر حکومت کے ساتھ مل کر بلوچ قوم کی نسل کشی ، غداری میں مصروفِ عمل ہیں اُس وقت ابراہیم خان مینگل بھی سرکاری کارندہ تھا نورا مینگل انکے خلاف بھی کارواٸیاں شروع کردیۓ ۔ جب نورالدین مینگل مالی امداد طلب کرنے سیستان بلوچستان میں رہنے والے بلوچوں کے پاس گۓ تو واپسی پر اِسی ابراہیم نے انگریز لشکر کے ساتھ مل کر ”نال“ کے مقام پر نورالدین مینگل کو گھیر لیا تھا۔
جب انگریز سرکار نے بمقام خضدار اپنا کیمپ قاٸم کیا تو نورا مینگل کو اطلاع ملی کہ انگریز فوج زیدی کی طرف سردار رسول بخش ساسولی کو مارنے جارہی ہے اب زیدی معاہدے کے مطابق تمام سرداران کو اپنے لشکر کے ساتھ انگریز فوج کو روکنے اور سردار رسول بخش ساسولی کی مدد کیلۓ زیدی روانہ ہونا تھا لہٰذا نورا مینگل بھی اپنے آٹھ ساتھیوں سمیت جن کے پاس ڈھاڈری بندوقیں اور تلواریں تھیں وڈھ سے براستہ ڈانسر سردار ساسولی کی مدد کو زیدی روانہ ہوۓ ۔ آدھا راستہ طے کرنے بعد نورا مینگل کو پتہ چلتا ہے کہ سردار رسول بخش پر حملہ کرنے کی باتیں ، نورا کو وڈھ سے زیدی کی طرف روانہ کرنا یہ سب انگریز فوج کی سازش تھی اور ایک چال کے ذریعے وہ زیدی نہیں بلکہ وڈھ پہ حملہ کرنے کی غرض سے نکلے ہیں ، انگریز فوج سِمان سے نورا مینگل کے بھتیجے محمد کو گرفتار کرکے میر گہرام کو شہید کرنے کی غرض سے وڈھ روانہ ہوچکے تھے۔
جیسے ہی نورا مینگل اور اُس کے ساتھیوں کو انگریزوں کی اس چال کا علم ہوتا ہے تو وہ آدھے راستے سے واپس وڈھ کی طرف سفر شروع کرتے ہیں۔ واپسی پہ نورا مینگل کو بارش کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے ان کی بندوقیں ناکارہ اور بارودیں نم آلود ہوتے ہیں۔ اُدھر وڈھ دودکی میں میر گہرام اور حسین خان اپنے اپنے بال بچوں کو دودکی سے لوپ منتقل کرکے انگریز فوج کے انتظار میں ہوتےہیں۔
25 جون 1916 بروزِ جمعہ کو انگریز نے دودکی میں میر گہرام کا محاصرہ کیا اور یوں جنگ شروع ہوٸی۔ شجاعت کا بازار سجا، تاریخ نے پھر سے خود کو دہرانا شروع کردیا۔ ایک طرف قابض اپنے لاٶ لشکر کے ساتھ اور مکمل تیاری کے ساتھ دوسری طرف بلوچستان کے کالے پہاڑوں میں بسنے والے بلوچ شہزادے ۔
جب نورا مینگل اپنے ساتھیوں سمیت ڈانسر سے وادی تَڑ پہنچے تو انگریز سرکار نے میر گہرام کو ساتھیوں سمیت شہید کرکے لوپ کی طرف روانہ ہوچکے تھے نورا مینگل اپنے ساتھیوں کے ساتھ پَھب نامی پہاڑی کے دامن پہ اترے تو انگریز لشکر قریب پہچ چکا تھا مگر نورا مینگل اُس وقت کوٸی گولی نہیں چلاٸی کیونکہ بارش کی وجہ بارود نم آلود ہوچکے تھے اُس وقت صرف نورا مینگل اور خان محمد کے پاس بندوقیں تھیں جو فاٸر کرنے کے قابل تھے باقی تمام سپاہیوں کے پاس صرف تلواریں ہی تھے ۔ اب ایک طرف انگریز فوج پوری تیاری کے ساتھ دوسری صرف دو بندوق اور تلواریں لیکن نورا مینگل نے ہمت نہیں ہاری اور یہ ایک مشکل وقت تھا کیونکہ نورا مینگل کو کم ہی وقت میں ایک اہم فیصلہ کرنا تھا ۔ نورا مینگل ایک ماہر گوریلا جنگجو تھا وہ جانتے تھے کہ ایک گوریلا جنگجو کو کم وساٸل کے باوجود اپنے سے کٸی گنا بڑے لشکر کو کیسے شکست دیا جاسکتا ہے۔
نوارا مینگل نے ایک حکمت عملی تیار کی جس کے مطابق نورا مینگل اور خان محمد کو راٸفل لے کر جھاڑیوں میں چُھپنا تھا باقی لشکر تلواریں نکال کے میدان جنگ میں کود پڑینگے یعنی ظاہر یہ کریں گے کہ بلوچ لشکر کے پاس کوٸی بندوق نہیں اپنے تلواروں کے ساتھ لڑیں گے اور نوارا مینگل اپنے اس منصوبے میں کامیاب بھی ہوۓ ۔ جب بلوچ لشکر اپنے تلواروں کے ساتھ میدان جنگ میں اترے تو انگریز فوج بلوچ لشکر کو آسانی سے مارنے کی خاطر اپنے اپنے مورچوں سے نکل پڑے اس وقت انگریز فوج کو چار آفیسرز کمان کررہے تھے نورا مینگل کم ہی وقت میں تین انگریز آفیسرز کو ہلاک کردیا اور دوسرے جھاڑی میں چھپے خان محمد نے اتنے دیر میں چوتھے آفیسر کے پیشانی میں گولی داغ چکے تھے ۔ انگریز فوج کی چار آفیسرز مارنے کی دیر تھی کہ انگریز فوج میں بھگدڑ مچ گٸ اور نورا مینگل نے چُن چُن کے 81 فوجی مار کر انگریز فوج اور علاقے کے آدمی جو ان کے ساتھ ملے ہوۓ تھے سب کو بھاگنے پہ مجبور کردیا۔
انگریز فوج کا بڑا نقصان ہوا تھا اس کا غصہ اپنے ساتھیوں پہ نکالا ۔ میر جمعہ خان شاہیزٸی اور اسکے کچھ ساتھی اگرچہ انگریز کے وفادار تھے لیکن انہیں بھی انگریز فوج نے گرفتار کرلیا بعد میں نہ جانے ان کے درمیان کیا معاہدہ طے پایا کہ انہیں رہا کردیا گیا۔
1917 کو انگریز فوج اپنے کچھ وفادار بلوچوں کے ساتھ مل کر وڈھ بمقام جوۓ نورا پر نورا مینگل کا گھیراٶ کیا مگر نورا مینگل ان کے گھیرے کو توڑ کر ان کے بیچ سے نکل گیا۔ 1917 تک تمام بلوچ غازی گرفتار ہوۓ یا مارے گیۓ حالات نے اکثر کو گوشہ نشینی اختیار کرنے پر مجبور کیا ۔مگر مردِ مجاہد غازی نورا مینگل تن تنہا پہاڑوں میں بے یارومددگار ٹھوکریں کھاتا ہوا سرگرداں تھا ۔ فرنگیوں کی سازشیں ، دباٶ اور لالچ دینے کی وجہ سے اُس کے تمام ساتھی اس سے جدا ہو گۓ تھے ۔ بدقسمتی سے اس دوران نورا مینگل کی بندوق میں خرابی پیدا ہوگٸ اور وہ اپنے راٸفل بنوانے کے غرض سے براستہ بسیمہ سردار حبیب اللہ نوشیروانی کے گھر خاران پہنچ گیا وہ اُسے ایک بلوچ سردار اور بلوچ خیرخواہ سمجھ کر مدد مانگنے گۓ تھے۔ نورا مینگل نے ان سے کہا کہ مجھے بندوق دیں یا میرا بندوق بنوا کر دیں یا کسی واقف کار کے ساتھ مجھے افغانستان بھیج دیں۔ تاکہ میں وہاں جاکر اپنی بندوق بنواسکوں۔ سردار حبیب اللہ نوشیروانی نے انہیں تسلی دی کہ آپ ہمارے مہمان ہیں بے خوف و خطر رہے ہر ممکن مدد کیا جاۓ گا۔ نورا مینگل کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ اسے دھوکہ دے گا مگر انگریز کے خوف اور انعام کے لالچ نے نوشیروانی کو اندھا کردیا تھا دسمبر 1917 کو انہوں اپنی فوج اور انگریز کو ساتھ ملا کر نورا مینگل کو اپنے گھر سے گرفتار کروالیا. ڈیڈھ سال تک نورا مینگل کے خلاف سینکڑوں الزامات قلم بند ہوتی رہیں آخرکار 9 اگست 1919 کو سرکاری جرگہ نے اسے انگریز حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کرنے اور اس بغاوت کو پورے بلوچستان میں پھیلانے کے جرم کا مجرم ثابت کر دیا اور اس کے لیۓ عمر قید کی سزا تجویز کردی ۔ جسے بلوچستان میں گورنر کے ایجنٹ نے منظور کرلیا (کہا جاتا ہے کہ خان قلات نے بھی اس تجویز کو منظور کر ہی لیا تھا) . شیر محمد گمشادزٸی اور علی محمد گمشادزٸی جو میر گہرام کے جنگجو تھے جنہیں انگریز فوج نے 1916 کو گرفتار کر لیا تھا دونوں ہی نورا مینگل کے ساتھ جیل میں تھے اور بلوچستان کی آزادی کے بعد رہا ہو کر آۓ تھے اب یہ معلوم نہیں کہ وہ کس دور میں رہا ہوۓ تھے (آیا وہ بلوچستان کی گیارہ ماہ کی خودمختاری کا دور تھا یا ریاست پاکستان بلوچستان پہ قبضہ کرچکا تھا) انہوں نے نورا مینگل کا قرآن شریف اور تسبیح ساتھ لاۓ تھے ان کے بقول نورا مینگل 30 نومبر 1921 کو جیل میں ہی وفات پاچکے تھے۔اور یوں 30 نومبر کو بلوچ قوم اپنے ایک عظیم گوریلا جنگجو نور محمد عرف نورا مینگل کو کھو چکے تھے۔ نورا مینگل 35 سال کی عمر میں وفات پاٸی تھی۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔