منتظر دیدہ خونبار ۔ سمی دین بلوچ

488

منتظر دیدہ خونبار
تحریر: سمی دین بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

‏‎رات گئے شام غریباں کی ساعت میں، جب میں کسی خونچکاں سڑ ک کنارے اپنے آپ کو ایک لمحہ صحرا نشین پاتی ہوں، جہاں درد فزا کی ارتعاش میں کسی غمخوار کی ایک جھلک بھی دیکھائی نہیں دیتی، پریشانیوں اور مشکلات کی بحرزرخار کے موجوں میں بس نفسانفسی کی ایک کرب و بلا میدان کے سوا اور کچھ نہیں ہے ، صرف بھیڑیوں اور جنگلی جانوروں کی دہشت زدہ آوازیں ہیں، انسان اور انسانیت وینٹی لیٹر پر ہیں، نہ کوئی بولتا ہے نہ ہی کوئی سنتاہے بس جمود کا عالم ہے۔ بس ہر ایک اپنی ہی موجوں میں مگن و مدہوش ہے جہاں ہر طرف جبر و بربریت کی خونی قدموں کے نشانات و علامات اس بات کی دلالت کرتے ہیں کہ یہ ریاست دہشت و جبر کی ایک مثالی تصور کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ انصاف ،جمہوریت ،امن و محبت اور انسانیت بس خوف و طماع اور مادیت کی منڈیوں میں سستے داموں میں بکتی جارہی ہے ، دنیا میں اشیاء انسانوں کے استعمال کے لیے ہوتے ہیں لیکن انسان آج اشیاء کے لیے استعمال ہوتے ہیں، خوداری اور عزت نفس ، ہر طرف خود پرستی اور خود غرضی کی ہاتھوں بے آبرو ہوکر نیلام ہورہے ہیں۔

‏‎علم و شعور بھی بے عملی کی شکنجوں میں سسک سسک کر اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے ، درسگاہیں بے علم عالم ، تعلیم یافتہ بے تعلیم ،اور تنخواہ خور نوکر پیدا کررہے ہیں۔ جب مجھے اندھیری سڑک کی اس سفر میں بے منزل راستہ ہی نظر آتی ہے تو اس وقت
‏‎ مایوسیوں اور ناامیدوں کی مختلف رنگ برنگے دھاگوں کے الگ الگ ٹکڑے ملتے ہیں، جن میں فقط گانٹھیں ہی نہیں بلکہ ان میں ایک دوسرے میں الجھے ہوے ذہنی الجھن بھی ہوتے ہیں۔

‏‎جب اپنی خونباری آنکھیں اٹھاکر آسمان کی طرف دیکھتی ہوں تو ستاروں کی تجمل اور براق میں مجھے میرے(والد ڈاکٹر دین محمد، جنہیں سب پیار سے دین جان کہتے تھے) نظر آتے ہیں۔
‏‎وہ مجھے بتاتے ہیں کہ جدوجہد زندہ ہے
‏‎ہمت ہاری نہیں جاری ہے،
‏‎انسانیت اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے،
‏‎مایوسی بدترین بزدلی ہے
‏‎اور بزدلی بدترین موت ہے
‏‎ہارنا شکست کھانے سے ارتفاع ہے
‏‎ناکامی کی خوف کامیابی کا اصل دشمن ہے
‏‎اپنی کم علمی کو جاننا ،وجدان حاصل کرنے کی پہلی نشانی ہے
‏‎میری بیٹی کبھی بھی ہمت ہار کر اور میدان میں شکست کھاکر مجھ سمیت ہزاروں اسیران کی زندگی شرط پر نہیں لگانا ،
‏‎یہ جنگ آپ جیت چکے ہو اور جیت تمھاری ہوگی۔

‏‎آج میرے لیئے درد اور تکلیف کی شدت اور اذیت اس لمحہ اپنی بے رحم انتہاء کو پہنچ جاتی ہے جب میں دین جان کی ہجر اور لاپتہ ہونے کی درد و تکلیف کو ہزار بار کوشش کرنے کی باوجود معمولی سطح پر بھی الفاظ کا لبادہ پہنانے میں ناکام ہوتی ہوں۔ درد مفارقت دین جان وہ درد و الم ہے جس کا اظہار کرنا اور کیفیت نویس ہونا، میرے الفاظ کی استطاعت سے باہر ہے۔ کاش میں وہ کرسکتی۔

‏‎ مجھے یقین ہے جہاں بھی اور کہیں بھی کوئی بھی زی شعور اور باضمیر انسان، جس کے پاس اگر درد پیما میسر ہوتا ،تو اپنے حساسیت سے اس الم کی گہرائی کو ناپ کر اس درد کی گہرائی کا اعادہ کرنے کے بعد یقینااس کا پورا وجود لرزہ خیز ہوکر روح کانپ اٹھتی اور اس کے پیروں تلے زمین نکل جاتی –

‏‎میں کبھی کبھبار سوچتی ہوں کہ میں کتنی بے حس بیٹی ہوں اب تک کیسے اور کیوں زندہ ہوں؟اپنے والد کو کیوں زندانوں سے آزاد کرانے میں کامیاب نہیں ہوئی ہوں ؟ میں ایسی ناکام زندگی تلے ، زندہ ہی کیوں ہوں ؟ جب مقصد حیات انتظار اور پندرہ سالوں سے لگے ہجر کی آگ کو بجھانا ہے ، تو کیا یہ زندگی ہے؟

‏‎پھر سوچتی ہوں ،نہیں! شاید میں زندہ اس لیے ہوں ، اور میری زندگی کا مقصد دین جان سمیت دیگر ہزاروں لاپتہ افراد کی واپسی کی جہدوجہد اور امید ہے ۔کیونکہ جب تک امید ہے تب تک زندگی ہے ، اور امید ہی زندگی کا محرک اعلی ہے۔

‏‎یہ وہ امید ہے ،جو مجھ سے سب کچھ چھن جانے کے باوجود پندرہ سالوں سے مجھے آگے بڑھتے رہنے کا حوصلہ عطاکررہا ہے ،یہی امید سورج بن کر میرے سر پر منڈلانے والے یاس و نا امیدی کے بادلوں کو رفع کررہا ہے ، نیلسن منڈیلا کی وہ بات مجھے یاد آتی ہے”زندگی نے مجھے کئی بار گرایا ہے،میں نے ایسی چیزیں دیکھی ہیں جو میں نہیں دیکھنا چاہتا تھا ، میں نے اداسی ، ناکامی ، کا تجربہ کیا ہے،لیکن ایک چیز جو ہمیشہ یقینی تھی وہ یہ ہے کہ میں اٹھ رہا تھا”۔

‏‎جب میں دین جان کی مہر و محبت اور خوشگوار یادوں کو لیکر اس کی تصویراپنی آنکھوں پر رکھ کر جب افسردہ یادوں میں کھو جاتی ہوں تو سوچتی ہوں، دنیا میں سب سے بد قسمت انسان میں ہی ہوں کہ ایسے مہربان باپ کی سائے سے آج محروم ہوکر صرف اس کے یادوں کی کرب میں جی رہی ہوں آخر کب یہ مسرت بخش خبر میری کانوں میں گونج اٹھے گی کہ دین جان بازیاب ہوچکا ہے۔ جب میں اس دن اور اس کیفیت کا سوچتی ہوں تو انتہائی مسرت پرور کیفیت میں مبتلا ہو جاتی ہوں۔ جب وہ دن اور کیفیت ایک دن حقیقت بن کر مجھے نصیب ہوگی ،تو شاید میں خود کو دنیا کا سب سے خوش نصیب انسان سمجھنا شروع کرونگی۔

‏‎جب میں خوش نصیبی کی اصطلاح سنتی ہوں تو میں صرف یہی سوچتی ہوں کہ دنیا میں سب سے خوش نصیب وہ بیٹے اور بیٹیاں ہیں ،
‏‎جو اپنے باپ کے شفقت کے سائے میں جی رہی ہیں ،اس سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی خوش نصیبی نہیں ہے۔

‏‎جب میں گھر سے باہر نکلتی ہوں تو کہیں بھی اگر میری نظر ان بچوں پر پڑتی ہے جو اپنے باپ کے ساتھ اکھٹے ہیں ، تو میرے دل پر ایک انجانہ لرزا طاری ہوجاتا ہے پھر بس دعا کرتی ہوں کہ یا اللہ ان بچوں کو اپنے باپ کے سائے سے کبھی دور نہ رکھنا اور پھر ان وحشیوں کو بددعا دیتی ہوں ،جو مجھے پندرہ سالوں سے میرے باپ کی مہربان سائے سے دور رکھے ہوئے ہیں۔

‏‎مجھ سے اکثر کہا جاتا ہے “سمی آپ کو اس بے رحم ریاست سے خوف نہیں آتا ہے ؟اگر آپ کے ساتھ کچھ کر لے ؟تو میرا ان کو بس یہی جواب ہوتا ہے آپ لوگوں کو کیا معلوم ہے، جب درد و کرب اور اذیت اپنی انتہاء پر پہنچ چکی ہو اور اپنے پیاروں کی مہر و محبت کا احساس اور جذبات زندگی کا ایک مضبوط حصہ بن کر پختہ شعور میں تبدیل ہو چکا ہو تو خوف نام کی کوئی کیفیت دل و دماغ میں آنے کی ہمت نہیں کرتا۔

‏‎گزشتہ پندرہ سالوں سے جب خواب میں دین جان کو اپنے پاس دیکھتی ہوں تو گہرے خواب سے تھرتھراہٹ کے ساتھ اٹھ جاتی ہوں ،
‏‎تو پھر کہاں میں اور کہاں دین جان ۔۔۔ لیکن پھر بھی ہمیں کہا جاتا ہے کہ ریاست ماں ہوتی ہے اس کی قدر کرنا چاہیے ، مائیں تو شفقت کا سایہ اور لوریاں ہوتی ہیں ،جو بچوں کو سکون کی نیند فراہم کرتی ہیں ، کیا کوئی ماں اتنی بے رحم ہوتی ہے جو اپنے بچوں کی نیند و سکون چھین لے؟

‏‎یہ صرف میں نہیں بلکہ میری پورے فیملی سمیت آج ہزاروں کی تعداد میں بلوچ ، پشتون اور سندھی اس کرب میں مبتلا ہیں، یہ ریاست پھر کس کی ماں ہوئی؟ کیا ریاستی اذیت کے شکار لاکھوں لوگوں کی دل میں ریاست کے خلاف جو نفرت اور بیزاری پیدا ہوچکی ہے ،کیا یہ اس ریاست کے لیے نیک شگون ثابت ہوگی؟

‏‎ اس کے علاوہ مجموعی طور پر بلوچ ، پشتون اور سندھی اقوام پر ریاست کی اس جبری گمشدگی کی غیر قانونی ، غیر انسانی ،غیر اسلامی اور غیر اخلاقی جابرانہ پالیسیوں کی وجہ سے جو نفرت و خلیج پیدا ہوچکی ہے ان پالیسیوں کے تحت حب الوطنی کی توقع رکھنا کیا محض احمقانہ توقعات نہیں ؟ میرے خیال میں یہ سوچنا بھی بے وقوفی اور احمقی کی آخری سطح ہوگی کہ دہشت ، بربریت ، خوف ، تشدد ،دھونس دھمکی اور قتل و غارت گری سے حمایت اور ہمدردی کی توقع رکھی جائے- نفرت کا بیج بو کر محبتوں کی ہریالی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

‏‎یہ قانون فطرت ہے کہ محبت و امن اور بھائی چارگی بزور طاقت ،بزور جبر اور بزور دہشت نہیں بلکہ عزت و شرف کی پر اعتماد اور باہمی احترام کے فضاء میں جنم لیتی ہے۔ تاریخ کے اواراق میں اس بات کی کوئی ایک جگہ بھی یہ نظیر نہیں ملتی ہے کہ دہشت اور طاقت کے بل بوتے پر کوئی ریاست کسی قوم کے احساسات اور جذبات کو جیت کر اسے اپنا ہمنوا بنا چکی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔