‎بلوچ نسل کشی اور بلوچستان میں فوجی جاریت گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے ۔بی ایس او آزاد

66

‎بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے فوجی جاریت نے ہر گھر اور ہر علاقے کو متاثر کیا ہے۔ اس وقت تک ہزاروں بلوچ شُہدہ اور کئی علاقے اور گھر بار تباہ ہوئے ہیں۔ جاؤ، مشکے، ڈیرہ بگٹی، آواران، کاہان، دشت، ہوشاب، شاپک، بلکہ بلوچستان کے بیشتر علاقوں سے لوگوں نے لاکھوں کی تعداد میں نقل مکانی کی ہے جبکہ اس کا تسلسل اب بھی جاری ہے۔ بلوچستان سے نقل مکانی کرنے والے لوگ جہاں گئے قابض فوج نے انہیں بمباری اور بربریت کا نشانہ بنایا جس کی مثال شہید دوستین اور ان کے لواحقین تھے جنہیں بمباری کرکے شہید کیا گیا۔ جہاں تک پاکستانی فوجی جاریت جنہیں نام نہاد آپریشنز کا نام دیا جاتا ہے یہ گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہیں اور وقفے وقفے ان میں تیزی اور کمی آتی رہی ہے لیکن اس کا سلسلہ کبھی بھی نہیں رکا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ گزشتہ دو تین دنوں سے بلوچستان سے لاپتہ افراد کی تین سے چار لاشیں برآمد ہوئی ہیں جن میں نوید لال کو گزشتہ دنوں 18 جون کو ہوشاب بازار سے ڈیتھ اسکواڈز کے اہلکاروں نے اغوا کیا اور اس کی گمشدگی کے 3 دن بعد 21 جون کو پنجگور سے ان کی لاش برآمد ہوئی، جبکہ گزشتہ دنوں ہی سوراب سے چند دن قبل لاپتہ دو افرادوں میں سے ایک عبدالقادر کی تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی جبکہ تمپ، جھاؤ، بیلہ، ڈھاڈر اور بلوچستان کے مختلف علاقوں سے مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے۔ نام نہاد اپیکس کمیٹی کی جانب سے جس فوجی جاریت کا اعلان کیا گیا ہے وہ بلوچستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے پہلے سے ہی جاری ہے لیکن اس طرح کے ناکام اقدامات سے قابض ریاست بلوچستان میں اپنی کھوئی ہوئی ساخت نہیں بچا سکتا، تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دنیا کے تمام قابض بدترین تشدد کا راستہ اختیار کرکے بھی ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں دنیا کی کوئی قوم فوجی وحشیت سے ختم نہیں ہوئی ہے۔ ‎

ترجمان نے کہا ہے کہ چین کی جانب سے پاکستان کو فوجی جاریت اور بربریت کیلئے پیسے اور وسائل دینے اور انہیں بلوچستان میں فوجی جاریت کو مزید بڑھانے کیلئے اکسانے پر ان کے عزائم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چین کی ابھرتی نئی استعماری اپروچ نے یورپین سامراج کی تاریخ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ چین ایک طرف بلوچ عوامی منشا و مرضی کے بغیر بلوچستان میں نام نہاد میگاپروجیکٹس کا جال بچا رہی ہے جس سے وہ بلوچ آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی پاکستانی پالیسی کو آگے بڑھا رہی ہے جبکہ خطے میں فوجی مفادات حاصل کرنے کیلئے بلوچستان جیسے مقبوضہ علاقے کو عالمی جنگ کا گڑ بنانے کی کوشش کر رہی ہے، بلوچ سائل پر قبضہ کرکے عالمی طاقتوں سے نبردآزما ہونے کی پالیسی کو پایا تکمیل تک پہنچانے کیلئے چین بلوچ آبادی کو ملیا میٹ کرنے کی پاکستانی پالیسی کی حمایت کرتے ہوئے خطے کو اپنے کنٹرول میں لینے کی خواہشمند ہے۔ اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے سیکورٹی کے نام پر بلین آف ڈالرز پاکستان کو مہیا کرچکے ہیں۔ موجودہ چینی قیادت کمیونسٹ پارٹی کی حقیقی تاریخ کو روندتے ہوئے ماؤ کے نظریہ سے غداری کا مرتکب ہو رہی ہے جس کی پالیسی ہمیشہ ایمپیرلزم کے خلاف رہی ہے لیکن چین کی موجودہ قیادت تمام تاریخی حقیقت کو روند کر اپنی ابھرتی طاقت کی گھمنڈ میں بلوچستان میں قابض پاکستانی فوج کی حمایت کرکے انہیں بلوچستان میں فوجی جاریت کیلئے بھرپور حمایت کر رہی ہے۔ چینی اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت کسی بھی قومی آزادی کے جہد کو ناکام نہیں بنا سکتی جس کو عوامی اور قومی حمایت حاصل ہو، بلوچ جہد آزادی کو مکمل بلوچ قومی حمایت حاصل ہے اور جلد یا بدیر قابض پاکستان کو بلوچستان سے نکالنے میں کامیاب ہونگے۔ چین طاقت کی گھمنڈ میں تاریخی اور انسانی حقیقت کو جھٹلانے سے گریز کریں اور یورپین ماڈل آف ایمپیرلزم کو چھوڑ کر بلوچستان میں قابض فوج کی حمایت کرنا بند کر دیں اور اپنی تاریخی کردار کو آگے بڑھا کر قومی آزادی کے جہد میں بلوچ قوم کی حمایت کرتے ہوئے خطے میں اپنے لیے مستقبل میں ایک بہتر دوست کا انتخاب کریں۔ ‎آخر میں بلوچ عوام سے اپیل کرتے ہوئے کہنا چاہتے ہیں کہ قابض پاکستان کی جانب سے ہمیشہ ایسے فوجی ہتکھنڈے استعمال کرتے ہوئے بلوچ عوام کو نقل مقانی پر مجبور کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور وہ اس کا ایک نیا فیز شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بلوچ عوام بہادری اور عزمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان قابض پالیسوں کے خلاف کھڑا ہوکر مزاحمت کا راستہ اپنائیں اور دنیا کو بتائیں کہ کس طرح قابض پاکستانی ریاست بلوچستان میں اپنی قبضہ گیریت پر مبنی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کیلئے بطور قوم بلوچ نسل کشی سرانجام دے رہی ہے جبکہ فوجی جاریت کے خلاف ہر علاقے سے لوگ سڑکوں پر نکل کر قابض کی پالیسیوں کا مقابلہ کریں۔ اس وقت بلوچ بقاء کا تعلق بلوچ مزاحمت سے جڑا ہوا ہے۔