کتاب: تنہائی کے سو سال
مصنف: گیبرل گارشیا مارکیز
تبصرہ: زامُر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
گیبرل گارشیا مارکیز اپنے ایک انٹرویو میں کہتا ہے کہ یہ کہانی میرے دماغ میں 15 سالوں سے تھی لیکن آغاز آور الفاظ کے چناؤ میں الجھا ہوا تھا پھر ایک دن میں اپنے فیملی کے ساتھ ٹرپ پر جارہا تھا گاڑی چلاتے وقت اچانک راستےمیں میرے دماغ میں کہانی کا آغاز آیا اور میں نے گاڑی موڑ دیا اور سیدھا گھر کی طرف روانہ ہوا جو کہ میکسیکو میں تھا گھر میں داخل ہوتے ہی میں اپنے کمرے میں چلا گیا اور لکھنا شروع کیا پھر18 مہنے تک وہ لکھتا رہا اس کی بیوی مرسڈیز نے اس سے کہا کہ آپ بس لکھنے میں آپنا وقت لگائے گھر کے خرچے کی فکر مت کرے تو جب یہ ناول مکمل ہوتا ہے اور مارکیز اپنے کمرے سے نکل کر دیکھتا ہے کہ گھر میں ایک بھی فرنیچر نہیں ہے مرسڈیز نے بھیج کر گھر کا خرچہ پورا کیا ہے تو کہتا ہے کہ جب ناول 1966 میں مکمل ہوا تو اسے پبلش کرنے کے لیے بھی ہمارے پاس پیسے نہیں تھے تو اس کی بیوی نے اپنے آخری زیور جو بچ گئے تھے وہ بھی بیھچ ڈالے پھر جب کتاب پبلش ہوئی تو اس شہر میں تہلکہ مچ گیا ایک ہی ہفتے میں لاتعداد کاپیاں بک گی اور ان کی مالی حالات بہتر سے بہترین ہوگی۔
اس ناول کی 40 زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ہے جو کہ اردو میں ڈاکٹر نعیم کلاسرا نے کیا ہے مارکیز کہتے تھے کہ مجھے لکھنا نہیں آتا تھا میں نے لکھنا کافکا کے ایک کہانی سے سیکھا ہے جیسے (metamorphosis) کے نام سے جانا جاتا ہیں جیسے پڑھنے کے بعد دو دن تک وہ کہانی میرے دماغ سے نکلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
تنہائی کے سو سال کا ماحول اس بوسیدہ ، لاتعلق آور زوال آمادہ تنہائی سے بھرا پڑا ہے جنگ آور تشدد سے گزر کے واقعات اس تنہائی کو اور بھی شدید کرتے ہیں ۔ عہد نامہ قدیم کھولیں تو پیدائش کے تازہ تازہ ماحول جہاں ابھی چیزوں کے نام نہیں رکھے گئے تنہائی کے سو سال ان چھوٹی چھوٹی حیرانیوں سے شروع ہوتی ہے۔
یہ جادوئی حقیقت نگاری (magical realism) پر مشتمل ہے
تنہائی کے سو سال ایک ایسے خاندان کی کہانی ہے جس کے سات نسلوں کی مختصر قسمیں بیان کی گئی ہے ارسلا اور ارکیدو بوایندہ کو ایک دوسرے سے محبت ہو جاتی ہے لیکن دونوں خاندان ان کی شادی کی مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ ان کی شادی کے نتیجے میں جو بچے پیدا ہونگے ان کے پیچھے دم لگی ہوگی وہ شادی تو کر لیتے ہیں لیکن اس بددعا کے اثر سے نہیں بچ سکتےلوگ بوایندہ کو مختلف قسم کے تھانے دینے شروع کرتے ہیں ایک دن وہ غصے میں آکر ایک آدمی کا قتل کر دیتا ہے اس وجہ سے ان کو اپنا علاقہ چھوڑنا پڑتا ہے وہ دلدلی علاقے کی طرف چلے جاتے ہے۔
اس طرح وہ یک رات خواب میں ایک ایسی بستی کو دیکھتا ہے جس کے دیوار شیشے کے ہوتے ہے اور وہ دو سال تک اسی بستی کی تلاش میں رہتا ہے پھر یہ حقیقت اس پر آشکار ہوتا ہے کہ ایسی بستی تو بس خوابوں میں نظر آتی ہے جس جگہ کے بارے میں اس بستی کے ہونے کا خواب دیکھتا ہے اسی جگہ پر وہ دونوں مل کر ایک بستی کا آغاز کرتے ہیں جس کا نام ماکندو رکھا جاتا ہے اس بستی میں وہ ہنسی خوشی رہنا شروع کر دیتے ہیں ان کے تین بچے پیدا ہوتے ہیں جوزےارکیدوبوایندہ دوسرے بیٹے کا نام کرنل ارلیانو بیٹی امرنتا وقت گزرتا جاتا ہے دنیا کو اس بستی کے بارے میں کوئی پتا نہیں یہ سارے جہاں سے الگ تھلگ بستی ہے۔
پھر ایک دن وہاں کوئی گروپ اجاتا ہے وہ لوگوں کو کچھ شوکیاں دیھکا کر ان سے پیسے بٹھورتے ہے وقت گزرتا ہے آور وہاں ایک چرچ کی آمد ہوتی ہے پھر ایک دن یوں ہوتا ہے کہ سرکاری مجسٹریٹ وہاں اٹپکتا ہے مجسٹریٹ کے آنے کے بعد بستی کا نظام سرکار کے لحاظ سے کیا جاتا ہے پھر ہوتا ہے سیاست کا آغاز پہلے باہر سے لوگ آئے پھر مذہب آیا آس کے بعد سرکار آئی اب سیاست کا آغاز ہوا تو دو پارٹیاں وجود میں آئی لبرل پارٹی آور کنزرویٹو پارٹی اختلافات شروع ہوتے ہی بستی میں خانا جنگی کا آغاز ہوگیا یہ جنگ 20 سال تک جاری رہی اور جب جنگ ختم ہوا تو کرنل ارلیانو ہیرو بن کر سامنے آیا جب ناول کا اختتام ہوتا ہے تو کرنل ارلیانو کچھ دستاویزات پڑھ رہا ہوتا ہے جس میں وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے جوبستی سو سال تک تنہائی کے آثار میں رہی وہ دوبارہ نہیں اٹھ سکتی اب اس کے ساتھ ساتھ کچھ نیا نہیں ہوگا یوں اس ناول کا اختتام ہوتا ہے۔
اس ناول میں مارکیز نے تین چار چیزوں کا جو ایک امتزاج ہے وہ بیان کیا ہے اس میں یاد ہے تنہائی ہے ماضی ہے خاب ہے آور حقیقت ہے اور اس میں سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ وہاں نو آبادیاتی نظام کا آغاز ہوتا ہے وہاں کولونلیزم آتی ہے یہاں یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایک بستی جس کا اپنا نظام اپنی زندگی آپنا طرزِ معاشرہ ہیں جب اس پر بیرونی آکر قبضہ کرتے ہیں پرانے لوگ نئے نظام کو قبول کرنے میں ہچکچاتے ہیں اس کا اپنا نظام اور آمن درہم برہم ہو جاتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔