بلوچستان: جبری گمشدگیوں کے خلاف کوئٹہ اور تربت میں احتجاجی دھرنے

126

بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے خلاف اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے مختلف شہروں میں احتجاج اور دھرنا جاری ہے-

تفصیلات کے مطابق بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تربت اور دارالحکومت کوئٹہ میں جبری لاپتہ افراد کی بازیابی اور جبری گمشدگیوں کے خلاف پولیس ایف آئی آر نا کاٹنے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے گئے-

کوئٹہ میں گذشتہ دنوں ایک ہاسٹل سے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والے شہیک اور فاروق بلوچ کے لواحقین نے دیگر طلباء و سیاسی کارکنان کے ہمراہ ایک ریلی نکالی اور ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے سامنے دھرنا دیتے ہوئے سڑک کو ٹریفک کے لئے بند کردیا ہے-

کوئٹہ احتجاجی دھرنے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انسانی حقوق کے کارکن بیبرگ بلوچ کا کہنا تھا کہ آج کا احتجاج کوئٹہ سے جبری لاپتہ دو نوجوان طالب علموں کی عدم بازیابی اور پولیس کی جانب سے واقعہ کی ایف آئی آر نا کرنے کے خلاف ہے، اگر انتظامیہ واقعہ کی ایف آئی آر درج نہیں کرتی تو انکا احتجاجی دھرنا ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے سامنے جاری رہیگا-

دوسری جانب گذشتہ روز بلوچستان کے علاقے زامران سے تربت پہنچنے والا احتجاجی لانگ مارچ کا دھرنا آج بھی ڈپٹی کمشنر کے دفتر کے سامنے جاری ہے، جہاں مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں کے ارکان اس احتجاجی دھرنا کا حصہ بنیں-

تربت احتجاجی دھرنے کی سربراہی جبری لاپتہ مسلم عارف کے والد عارف بلوچ،حق دو تحریک کے ضلعی صدر حاجی ناصر و دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین کررہے تھے۔

تربت مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ زامران بلخصوص بلیدہ میں ریاستی فورسز کی بدمعاشی اور لوگوں کو جبری گمشدگی کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے مقامی افراد کو خوف میں عالم میں رکھا گیا ہے اور درجنوں افراد ابتک فورسز کی جبری گمشدگی کا نشانہ بننے ہیں اگر انتظامیہ اس پر کاروائی نہیں کرتی اور لاپتہ افراد کو منظرعام پر نہیں لایا جاتا تو احتجاجی تحریک کو مزید وسعت دینگے-

تربت دھرنے کے شرکاء نے مطالبہ کیا ہے کہ سیاسی و انسانی حقوق کے ادارے جبری گمشدگیوں کے خلاف آواز اُٹھائیں اور لاپتہ افراد کی بازیابی ممکن بنانے میں انکی مدد کریں-