بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ بشیر زیب بلوچ کی ایک ویڈیو بدھ کے روز منظر عام پر آئی۔ یہ ویڈیو بی ایل اے کی آفیشل میڈیا ‘ہکّل’ پر شائع کیا گیا۔ نائٹ وژن کیمرے کیساتھ بنائی گئی پچاس منٹ پر مشتمل ویڈیو میں بی ایل اے سربراہ کسی نامعلوم پہاری مقام پر مسلح بلوچ سرمچاروں کے ساتھ بیٹھے دیکھے جاسکتے ہیں۔ بشیر زیب بلوچ بلوچی و براہوئی زبان میں اس نشست میں سرمچاروں کی جانب سے گوریلا جنگ، ڈسپلن، تنظیم کے متعلق سوالات کے مفصل جواب دیتے ہیں۔
ویڈیو کے آغاز میں بی ایل اے سربراہ پہاڑی مقام پر واکی ٹاکی اور موبائل فون کیساتھ بیٹھے دیکھے جاسکتے ہیں جبکہ وہ جدید ہتھیاروں کیساتھ مسلح سرمچاروں کے حفاظتی حصار میں ہیں۔ دوسرے مناظر میں وہ سرمچاروں کے ہمراہ پہاڑوں کے درمیان محو سفر دکھائے گئے ہیں۔
اس نشست میں بلوچ لبریشن آرمی کے سربراہ سے سوال کیا گیا کہ گوریلا جنگ کیا ہے؟ ہم جو گوریلا جنگ کررہے ہیں کیا اس کے ذریعے ہم پاکستان و چین کو شکست دے سکتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں بشیر زیب نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اپنے سے زیادہ طاقتور کو شکست دینے کیلئے جو طریقہ کار تشکیل دیا گیا ہے اس کو گوریلا جنگ کا نام دیا گیا، اس کو چھاپہ مار کارروائی اور خفیہ جنگ کہا جاتا ہے۔ گوریلا جنگ خود کیا ہے؛ یہ ایک فن، ایک آرٹ، ایک ہنر، ایک مہارت ہے۔
“گوریلا جنگ کیسے ہو اور کس طرح آگے لیجایا جائے، کس طریقہ کار کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ گوریلا جنگ ہے۔ جو گوریلا جنگ ہم کررہے ہیں اس میں ہمیں کتنا ماہر ہونا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ دشمن فوجی، اقتصادی، انٹیلی جنس، ہتھیار، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حوالے سے طاقتور ہے پھر ہم مظلوموں، محکوموں کے پاس جو بھی ہے وہ گوریلا جنگ ہے۔”
انہوں نے کہا کہ گوریلا جنگ ایک فن ہے۔ اگر آپ اس فن میں ماہر نہیں ہوتے ہو، اس ہنر کے ہنرمندی پر نہیں پہنچتے ہیں تو میرے خیال میں مشکل ہے کہ آپ دشمن کو شکست دے سکتے ہو، مشکل ہے آپ دشمن کو اپنی سرزمین سے نکال سکیں۔ دنیا میں کوئی بھی چیز میں ماہر ہونے یا ہنر مند ہونے کیلئے محنت اور ایمانداری شرائط رہے ہیں۔ گوریلا جنگ سمیت کوئی بھی مہارت ہو اس کے لیے محنت و ایمانداری لازم ہے۔ اگر ان میں سے ایک چیز ہو دوسری نہ ہو یعنی آپ اپنے مہارت میں ایماندار ہو لیکن محنت و مشقت نہیں کرتے ہیں تو اپنے مقصد تک نہیں پہنچ پاتے ہیں۔ اسی طرح آپ محنت کرتے ہو لیکن ایماندار نہیں ہو پھر بھی اس مقام کو پہنچ نہیں پاتے ہیں۔
“آج اسی مہارت، فن کو حاصل کرنے کیلئے کیا ضروریات ہے؟ یعنی گوریلا جنگ کی ریڑھ کی ہڈی یا اُس کی روح رازداری ہے۔ آپ کس حد تک رازداری کرتے ہیں۔ رازداری محض یہ نہیں کہ آپ اپنی زبان سے کچھ بولتے ہو۔ راز دینے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں یعنی آپ کسی جگہ بیٹھ کر تاثر دیتے ہیں، کسی جگہ مذاق میں کوئی بات کرتے ہیں، آپ کسی عام مجلس میں اتنی باتیں کرتے ہیں کہ آپ کا علاقہ، نام، خاندان، کام ظاہر ہوتا ہے۔ آپ کسی جگہ بیٹھ کر قصہ کہانیاں بیان کرتے ہیں وہاں بعض جگہوں پر آپ کا راز چلا جاتا ہے۔”
“ہمارے پاس طریقہ کار کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ نظریہ فکر اپنی جگہ لیکن اتنی بڑی طاقت جو آپ سے کئی گناہ زیادہ ہے تو اس کیلئے آپ کا طریقہ کار ضروری ہے۔ بعض جگہوں پر آپ اپنے طریقہ کار کو عملاً نہیں اپناتے ہو تو وہاں نقصانات اٹھانے پڑتے ہیں اور ہمارے (بلوچ قومی) تحریک کے آغاز سے لیکر آج تک جتنے بھی نقصانات ہوئے ہیں ہم دعوے کے ساتھ کہتے ہیں اور ایک ایک واقعے کو ثابت کرسکتے ہیں کہ اُدھر پاکستانی دشمن کی ہنرمندی، مکاری، صلاحیت اور چالاکی نہیں ہوئی ہے بلکہ ہر واقعے میں ہماری کمزوری، لاپرواہی، ہماری سستی، ہماری آزاد خیالی ہمارے نقصان کا موجب بنا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ ہمارا دشمن طاقتور ہے اس سے ہم انکار نہیں کرتے ہیں لیکن یہ بات بھی عیاں ہے کہ وہ اندھا اور بہرہ ہے جبکہ اس کی آںکھیں اور کان ہماری کمزوری، لاپرواہی ہوئے ہیں اسی بنیاد پر دشمن نے کسی جگہ پہنچ کر ہمیں نقصان پہنچایا ہے۔ موجودہ تحریک کے آغاز سے آج تک جتنے بھی چھوٹے یا بڑے واقعات ہوئے ہیں، ان پر ہم نے تحقیق کی ہے، معلومات حاصل کی، ہم نے غور و فکر کیا، ہر واقعے کے بعد ہمیں ضرور کسی نہ کسی جگہ پر اپنی خود کی کمزوری، لاپرواہی دیکھنے کو ملی ہے۔ ایسا کوئی جگہ نہیں جہاں ہم کہہ سکیں کہ ہمارے دشمن نے کتنے سوچ سمجھ کر، فن و ہنری اور صلاحیت کیساتھ یہاں کامیاب حاصل کیا۔
“ہم گوریلا جنگ کررہے ہیں اس فن میں ہمیں ماہر ہونا ہوگا؛ نظریہ، فکر، بہادری، جذبہ، مخلصی، ایمانداری سب اپنی جگہ ہے اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے، ان کی اپنی اہمیت ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس کو ایک طریقہ کار کی ضرورت ہے۔ اُس طریقہ کار کو دنیا نے ایجاد کیا ہے وہ چیز گوریلا جنگ ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مظلوم، بے بس، بے وسائل اقوام نے پاکستان سے زیادہ طاقتور ملکوں، قوموں، طاقتوں، سلطنتوں کو شکست دیکر کامیاب ہوئے ہیں۔ ہم سادہ الفاظ میں کہتے ہیں کہ گوریلا جنگ ایک فن و ہنر ہے اس میں ہنر مند ہونے کیلئے محنت اور ایمانداری کی ضروت ہے۔”
بی ایل اے سربراہ سے دوسرا سوال کیا گیا کہ تنظیم کیا ہے، تنظیم کا کیا کردار ہوتا ہے، تنظیم ہمارے مقصد کو کیسے صحیح سمت دے سکتا ہے؟
اس کے جواب میں بشیر زیب بلوچ کا کہنا ہے کہ تنظیم کہنا بہت آسان ہے، یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ تنظیم بنانا بھی بہت آسان ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ تنظیم کو جاننا بھی بہت آسان ہے لیکن تنظیم کو بنانا اور تنظیم بننا پھر تنظیم کو ساتھیوں پر نافذ العمل کرنا بہت دشوار کام ہے۔ جیسے کہ لوگ تنظیم کو بیان کرتے ہیں، کاغذوں میں تنظیم بناتے ہیں اس کو عملی شکل میں عملاً اختیار کرنا انتہائی مشکل ہے۔ یہ اس وقت تک مشکل ہے جب تک آپ اپنے ذات میں خود ایک تنظیم نہیں ہوتے ہیں۔ تنظیم کو ذہن اور پھر کاغذ پر لانا ایک دن کا کام ہے جبکہ اس کو نافذ العمل کرنا، پریکٹیکلی شکل میں لانے میں اس وقت تک مشکل جب ایک عام شخص جو خود یا تنظیم اس کو تنظیمی شکل میں لاتی ہے۔
“تنظیم کو ہمارے لوگ جس طرح آسان سمجھتے ہیں، آسان بیان کرتے ہیں اس طرح نہیں ہے یعنی جنگ میں مسلح جدوجہد ہو یا پرامن جدوجہد ہو اس کیلئے بیٹھ کر غور و فکر کیا جاتا ہے۔ وہ لوگ جانتے اور سمجھتے ہیں کہ تنظیم کیا ہے، پھر اپنے سماج، اپنے لوگوں اور لوگوں کے سوچ، اپروچ، شعور، زانت، تعلیم اور لوگوں کا مزاج کس مقام پر ہے۔ وہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے قوم، اپنے لوگوں کے نبض پر ہاتھ رکھ کر سمجھ جاتے ہیں کہ ہمارے لوگوں کی طبیعت و مزاج کیا ہے۔ ہمارے لوگوں کے شعور کی سطح کیا ہے کہ ہم ایک اسٹرکچر بناتے ہیں، ایک ادارہ بناتے ہیں پھر ہم نافذ العمل کرتے ہیں، نافذ العمل کا طریقہ کار لوگوں سے پہلے اپنے ساتھیوں پر کیا ہے، پہلے ہم اپنے لیے اس کی تشکیل کرتے ہیں پھر اپنے ساتھیوں پر نافذ العمل کرتے ہیں پھر وہ کس طرح اس کو آگے لے جاتے ہیں اور لوگ اس کو اپناتے ہیں۔ تنظیم اسی کو کہتے ہیں۔”
“تنظیم ایک رات، چند دنوں، مہینوں یا سالوں میں تیار نہیں ہوتا ہے جبکہ ہمارے لوگ، ہمارے جہد کار بیٹھ کر صرف کاغذ پر لکھ کر اعلان کرتے ہیں کہ تنظیم تیار ہوگئی۔ تنظیم کی شکل میں آگئی۔”
انہوں نے کہا کہ ہم ہم جہد کار، لیڈرشپ سے لیکر کمانڈ تک، کمانڈ سے لیکر سپاہی تک، اگر ہم کہتے ہیں کہ ہم جہد کا حصہ ہے، ہم قربانی دے رہے ہیں، ہم مخلصی کیساتھ کام کررہے ہیں، ہم اپنی جان قربان کررہے ہیں لیکن اگر ہم کہتے ہیں کہ ہم مکمل تنظیمی نہیں ہے اور تنظیمی جو ضروریات و تقاضے ہوتے ہیں ہم ان پر پورا نہیں اترتے ہیں۔ مطلب تنظیمی بننے کا یہ معیار ہے کہ وہ اُن لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں جو جہد کا حصہ نہیں ہے۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا، ان کا نقطہ نظر، ان کا چیزوں کو دیکھنا سمجھا، ان کا غور کرنا سب عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں، ان کا چلنا، رابطہ کرنا، ان کا تعلق رشتہ، ان کی اپروچ، ان کی سوچ، سب سے بڑھ کا ان کا چیزوں کو دیکھنا، ان کا نقطہ نظر عام لوگوں، عام لوگ کہنا ہے مناسب ہے یا نہیں لیکن اس سے مراد وہ لوگ جو جہد میں حصہ دار نہیں ہے، سے مختلف ہوتا ہے۔ ان کے ڈسکشن، مجالس، ان کی سنگتی، نفرت جتنے بھی تنظیمی یا خاص کر انقلابی لوگ ہوتے ہیں ان میں مذکورہ چیزیں مختلف ہوتے ہیں۔
“ہم جہد کا حصہ ہے لیکن ہم کیا ہے۔ ہم ظاہری تنظیم کا حصہ ہے، تنظیم کے عہدیدار، سربراہ، کمانڈ، سپاہی، جہد کار ہے لیکن ہمارے جو جہد کار ہے، تنظیم کا حصہ ہے، سرمچار ہے یا سرفیس پر جہدکار ہے؛ ہمارے اوپر تنظیم کا چلکا چڑا ہوا ہے جس پر اگر تھوڑی رگڑائی آتی ہے تو ہماری اصلیت سامنے آتی ہے۔ وہ اصلیت جو عام زندگی میں ہماری رہی ہے۔ ہمارے رشتوں کو دیکھیں، ہمارا خوش ہونے اور نفرت کو دیکھیں، ہماری محبت و نفرت عام لوگوں کی ہے۔ ہمارے مجالس، ضد، ناراضگی، ہمارے رویے، طبیعت عام لوگوں کے ہیں۔ واضح بات ہے کہ اگر نقطہ نظر عام لوگوں کی ہے تو رویہ بھی عام لوگوں کی ہوگی پھر اس کا عمل بھی عام لوگوں کی ہوگی کیونکہ نقطہ نظر سے انسانی رویہ پیدا ہوتی ہے اور رویہ سے انسانی عمل پیدا ہوتی ہے۔”
“اس وقت ہمارے نیچے کی سطح سے لیکر اوپر تک اگر عام لوگوں و عام زندگی سے ہم مختلف، تنظیمی ضرورتوں کے مطابق چیزیں نافذ العمل ہوتے ہیں پھر ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک تنظیم ہے۔ پھر ہم کہہ سکتے ہیں دعویٰ کرسکتے ہیں، نہیں تو چند لوگ یا شخص بیٹھ کر کاغذ پر بناکر اعلان کرتا ہے کہ تنظیم بن چکی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ کسی نے بندوق اٹھائی ہے لیکن اس کی سوچ، اپروچ، نقطہ نظر، طریقہ کار، اس کا چلنا پھرنا کس طرح ہے۔ وہ ایک گوریلا تنظیم سے تعلق رکھتا ہے لیکن اس کا طریقہ کار اس کی رازداری، سنگتی، نفرت، اس کا جذباتی لگاؤ، دوستی، خاندانی رشتہ داریاں، ترجیحات کیا ہے، ان سب کو آپ دیکھتے ہیں وہ تنظیمی نہیں ہے۔ اس کا کھانا، سونا، پھرنا ان سب کو آپ دیکھتے ہیں عام لوگوں جیسے ہوتے ہیں جو جہد میں حصہ دار نہیں اور پھر عام لوگوں اور اس جہد کار میں کوئی فرق نہیں ہوتا ہے جس سے وہ لوگوں کے لیے متاثر کن نہیں ہوتا ہے۔ عام لوگ اس کو قبول نہیں کرتے ہیں۔
“کردار، انصاف، رویہ، اخلاق، طبیعت، مزاج کے حوالے سے تنظیمی افراد کون اور کیسے ہوتے ہیں اس کی میں نے وضاحت کی کہ تنظیمی خدوخال تشکیل دیا جاتا ہے کہ اس کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے۔ وہ صرف کاغذوں پر نہیں ہوتی ہے۔ چی گویرا کے بقول ہر جہد کار اپنے اندر خود ایک تنظیم ہے اور اپنے آپ میں خود ایک تنظیم، ادارہ بننا ہے، خود کو پابند کرنا ہے۔ جب یہ چیزیں ہوں گی تب آپ تنظیم کہہ سکتے ہیں۔
اس نشست میں ایک سرمچار بی ایل اے سربراہ کہتا ہے کہ گوریلا جنگ کے حوالے سے بات ہوئی، وہ پوچھتا ہے کہ گوریلا ڈسپلن کیا ہے؟ کیا گوریلا ڈسپلن پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے یا وقت کیساتھ ساتھ اس میں تبدیلی آتی ہے؟
بی ایل اے سربراہ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بہت اہم سوال ہے کہ گوریلا جنگ کی ڈسپلن یا ضاطبہ اخلاق کیا ہے۔ اس کو بہت زیادہ ڈسکس کیا جاتا ہے، ڈسلپن کو اکثر گفتگو میں لائی جاتی ہے۔ یہ سوال پہلے والے سوال سے منسلک ہے کہ جب تنظیم بنائی جاتی ہے، اس کا ڈھانچہ بنایا جاتا ہے اس کا ڈسپلن (ضابطہ اخلاق) بھی بن جاتی ہے۔ وہ ڈسپلن جہاں مختلف خیالات کے افراد ایک فکر و نظریہ کے تحت آکر جمع ہوتے ہیں، مختلف خیال، مزاج و طبیعت اس طرح ہوتے ہیں کہ ہمارا قوم، سماج و معاشرہ ایک ہی ہیں لیکن کسی کی تربیت کس طرح ہوئی ہے، وراثت میں اسے کیا ملا ہے، کس علاقے، خاندان میں پیدا ہوا ہے ہر علاقے، ہر خاندان کی طبیعت، مزاج مختلف ہوتے ہیں۔ کہاں و کس ادارے میں پڑھ چکا ہے؛ یہ مختلف ہوتے ہیں۔ تو ان سب کو ایک نقطے پر لانا یعنی قومی فکر، تنظیم، نظریے پر لانا یہاں ایک ڈسپلن تشکیل دینی ہوگی۔ پھر اس میں حدود اور اصول تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ یہ اسی دن تشکیل دیئے جاتے ہیں جس دن آپ نے تنظیم بنائی ہے۔ تنظیم کا ڈسپلن واضح ہو کہ اس دائرہ کار میں لیڈر سے لیکر جہد کار تک اس کے حدود واضح ہو، اس دائرہ کار میں وہ اپنے کام کرے گا۔ یہ ڈسپلن مختلف مزاج، سب کو پابند کرتا ہے۔ ایک مرکزیت ہوتی ہے جو سب کو پابند کرتی ہے اس کو آپ ڈسپلن کہتے ہیں۔
“گوریلا تنظیم، جو دشمن کیخلاف ایک جنگ لڑرہی ہوتی ہے۔ اس کی دفاعی جنگ ہوتی ہے۔ گوریلا تنظیم کے ڈسپلن کے حروف قرآنی حرف نہیں ہوتے ہیں، وہ وقت و حالات کیساتھ تبدیل ہوتے ہیں۔ اس کے ایسے شق بھی ہوتے ہیں جو منزل حاصل کرنے تک موجود رہتے ہیں جبکہ بعض میں تبدیلی آتی ہے، بعض جگہوں پر ان میں دیگر چیزیں شامل کی جاتی ہے۔ ڈسپلن کی بنیاد رکھی جاتی ہے، پھر گوریلا تنظیم یا انقلابی تنظیم کی ڈسپلن بنتی رہتی ہے وہ آپ کی کمزوری، کامیابی، لاپروائی ان سب کیساتھ یہ ڈسپلن سپاہی سے زیادہ خون و پسینے سے بنتی ہے، نقصانات اور فوائد کو سامنے رکھتے ہوئے اس ڈسپلن کو بناتے رہتے ہو اور اس میں بعض ایسی شقیں ہوتی ہے جن کو آپ دیکھتے ہیں کہ ان کو رائج نہیں کیا جاسکتا، ان کی پہلے ضرورت تھی لیکن آج نہیں ہے آپ ان اصولوں کو نکال دیتے ہیں کہ ان کے فوائد نہیں ہے، نئی چیزیں آتی ہے آپ ان میں تبدیلی کرتے رہتے ہیں، یہ تبدیلی مہینوں، سالوں میں بھی ہوسکتی ہے۔”
“کچھ اصول بنیادی ہوتے ہیں لیکن ان کو وضاحت کی ضرورت ہوتی ہے، ان کو سمجھنا پڑتا ہے۔ یہ نہیں کہ دس سال قبل آپ نے کتابچہ کی شکل میں نکالی کہ یہ تنظیم کے اصول ہیں ان پر پابند ہونا ہے۔ اس کتابچہ کو آپ شائع کرتے ہیں اس کو لفظ بہ لفظ آپ سمجھاتے ہیں اور آپ دیکھتے ہیں کہ عملاً ان اصولوں کو اختیار کیا گیا ہے اگر یہ چیز نہیں ہوتی ہے تو ہم کوئی تنظیم چلاتے ہیں تو ہماری خود کی جو طبیعت ہوگی، جو سوچ ہوئی، جو خوائش و پسند ہوئی ہم ان سب کو ڈسپلن کا نام دینگے۔ ہمارے ذاتی سوچ، مزاج، طبیعت، نازرک طبیعت کے برعکس جو بھی چیز ہو ہم کہتے ہیں ڈسپلن کی خلاف ورزی ہے لیکن اگر حقیقی بنیادوں پر دیکھا جائے ڈسپلن وہ ترتیب، طریقہ کار، ضابطہ ہے جو ایک شخص نہیں بلکہ وہ اسٹرکچر جہاں پانچ یا پندرہ افراد بیٹھ کر ڈسکس کرکے سب غور کرتے ہیں، وہ اپنے سابقہ تمام چیزوں؛ نقصانات ہوئے ہیں، جتنی خون یا پسینہ دیا گیا ہے، جتنے فوائد و کامیابی ہوئی ہے ان سب کو سامنے رکھ کر ڈسکس کرکے ایک نتیجے پر پہنچ کر ایک طریقہ کار وضح کرتے ہیں اس کو ڈسپلن کہتے ہیں اب جب آپ آگے بڑھتے ہیں دشمن اپنے طریقہ کار کو مسلسل تبدیلی کرتی رہتی ہے، کاؤنٹر انسرجنسی کے تحت طریقے کو مسلسل تبدیل کرتا ہے لیکن ہم بیس سال پہلے بنائے گئے چیزوں کو اٹھاکر ڈسپلن کا نام دیتے ہیں تو وہ ڈسپلن نہیں ہوتی ہے بلکہ آپ اس کو مسلسل تبدیلی کرتے ہیں، اس میں ترامیم کرتے ہیں، یہ نہیں کہ رسمی طور پر، اکثر سیاسی پارٹیوں کی طرح کہ کونسل سیشن سے ہفتہ دس دن پہلے کتابچہ کو پھر سے چھاپ کر اس میں عہدیداروں کے نام تبدیلی کرکے پھر سے شائع کیا گیا یا رسماً پھر سے ڈسکس کیلئے رکھ کر کہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ سب متفق ہے تو سب نے ہاتھ اوپر کرکے اتفاق کیا، یہ سب ڈسپلن نہیں بلکہ رٹہ ہے، یہ صرف سننے والی باتیں ہیں جو ذہنوں میں بیٹھ گئے ہیں، جو ہمارے مزاج و طبیعت کے مطابق نہیں ہوا ہم ڈسپلن کا نام دیتے ہیں بعض جگہوں پر آپ کے سماجی معاملات آتے ہیں وہاں آپ کا ڈسپلن کیا کہتا ہے۔ بعض جگہوں پر آپ کے بلوچی رسم و رواج آتے ہیں جو ہر علاقے میں قبائل کے مطابق مختلف ہوتے ہیں، وہ رسم و رواج آپ کے ڈسپلن کے ساتھ واضح تضاد پر جاتے ہیں وہاں آپ کیا کرینگے! تو اس طرح کے مشکلات بھی پیش آتے ہیں لیکن آپ کو تحقیق کرنا ہے ان کو تبدیل کرتے ہوئے لانا ہوتا ہے، منظر عام پر لاکر ان کی وضاحت کرتے ہیں۔
“بعض جگہوں پر عہدیدار ہوتے ہیں یعنی لیڈر سے لیکر کمانڈ و سپاہی کے حدود، اختیار کی تحریری وضاحت کیساتھ ان کی تربیت کرکے ان کو سمجھانا ہے۔”
بی ایل اے سربراہ نے کسی کمانڈر کی خصوصیات و ضابطہ اخلاق کے حوالے سے بتایا کہ کمانڈر کی خصوصیات میں اس کی اول خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ جنگ کو کمانڈ کررہا ہے وہ ذہنی و جسمانی حوالے سے کتنا فٹ ہے۔ دوسری کہ وہ کمانڈ کررہا ہے اس کے ساتھ ساتھی منسلک ہیں وہ ان ساتھیوں کے طبیعت و مزاج، صلاحیت سب کو کتنا سمجھتا ہے۔ وہ کتنا بہادر ہے، وہ کس حد تک فیصلے اٹھا سکتا ہے، وہ جس علاقے میں بیٹھا ہے وہ اس علاقے کو جغرافیائی حوالے سے کتنا سمجھتا ہے۔ بفرض کوئی تربت کے علاقے کا کمانڈ ہے۔ تربت ریجن اس کے ہاتھ میں ہیں؛ تربت میں بیٹھا برگیڈیئر آئی ایس آئی، ایم آئی یا آرمی کا ہوتا ہے باقی اس کی انٹیلی جنس بشمول اپنے ڈیتھ اسکواڈ یا علاقائی اپنے نمائندوں و مخبروں کے ساتھ وہ بیٹھتے ہیں اور ڈسکس کرتے ہیں کہ تربت ریجن میں انسرجنسی بڑھ رہی ہے اس کو کیسے کاؤنٹر کریں، وہ منصوبہ بندی کرتے ہیں، پروگرام ترتیب دیتے ہیں، وہ تیاری کرتے ہیں، وہ حملہ کرتے ہیں۔
آپ کا ریجنل کمانڈ اتنا باصلاحیت ہو کہ وہ انٹیلی جنس بیسڈ، اپنے ذرائع سے، اپنی صلاحیت و ادراک کے مطابق سمجھے کہ دشمن کی چال، مکاری، حکمت عملی ہمیں کاؤنٹر کرنے کیلئے کیا ہے۔ ریجنل کمانڈ کے پاس وہ منصوبہ، حکمت عملی ہو کہ دشمن کو مارنا، دشمن کو کمزور کرنے کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے۔ تیسرا وہ بتائے کہ تحریک میں نقصانات تو ہیں لیکن کہاں ہمیں کم نقصان ہوسکتا ہے، وہ کیا ہے۔ ہمیں اپنے ساتھیوں کو کیسے محفوظ رکھنا ہے۔ ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ اسے اپنے علاقے کی مکمل معلومات ہونی چاہیے کہ علاقہ جغرافیائی حوالے سے کیسا ہے، یہ پہاڑ کیسے ہیں، پانی کہاں کتنی موجود ہیں، موسم کیسا ہوگا اور علاقے میں کتنی فورس موجود ہیں، کتنے پروجیکٹس چل رہے ہیں، پروجیکٹس پر کتنے استحصالی کام چل رہے ہیں، علاقے میں کتنے لوگ دشمن کیلئے کام کررہے ہیں اور ریاست تشدد کیساتھ ساتھ پرامن طریقے سے کیا کام کررہا ہے، ریاست کی کونسی ڈویلپمنٹس لوگوں بلخصوص نوجوانوں پر ہورہے ہیں۔ ان سب چیزوں کو اس کو سمجھنا ہوگا اس کو ان پر الرٹ ہونا ہوگا۔
“یہ ایک ریجنل کمانڈ کی بات ہوئی اسی طرح سینٹرل کمانڈ، سپریم کمانڈ اور ہائی کمانڈ آتا ہے ان کی سطح بڑھ جاتی ہے۔ ہائی کمانڈ کو سمجھنا ہوگا کہ آج پاکستان آئی ایس آئی سربراہ، ایم آئی سربراہ، آرمی سربراہ، اس کی تمام انٹیلی جنس بشمول چین آج کاؤنٹر انسرجنسی کے حوالے سے کیا پالیسی بنارہے ہیں، ہمیں ختم کرنے کیلئے کیا کررہے ہیں اور ہم اس کو مارنے، نقصان دینے، خود کو محفوظ کرنے، آگے بڑھنے، اپنے لوگوں کو جاننے، دشمن کے پرامن تشدد کو جاننے کیلئے مرکزی سطح پر اس کو اپڈیٹ ہونا ہوگا۔ اس کو بلوچستان کی پوری جغرافیہ سمجھنی ہوگی، کونسی ڈویلپمنٹ ہورہی ہے۔ ایک سال قبل اس پہاڑی کی حالت مختلف ہوئی ہے آج مختلف ہے اور آنے والے چھ مہینے میں مختلف ہوگی یعنی آپ ان سب چیزوں کو دیکھتے ہیں۔ سینٹرل کمانڈ ان سب چیزوں کو سمجھے گی پھر وہ پالیسی بناتی ہے، حکمت عملی بناتی ہے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اسی بنیاد پر اگر وہ (عہدیدار) منتخب کیئے جاتے ہیں، اس بنیاد پر ان کو اختیار اور ذمہ داری دی جاتی ہے پھر تمام ساتھی جن کو ذمہ داری دی جاتی ہے تو وہ کوشش کرتے ہیں کہ مجھ میں یہی صلاحیت ہو اگر نہیں ہے تو میں ان کیلئے کوشش کروں، میں ان کیلئے تحقیق، محنت کروں، اس کیلئے میں اسٹڈی کروں، اس کیلئے تجربہ کروں، میں اس کیلئے غور و فکر کروں۔ اگر اس بنیاد پر کسی کو منتخب نہیں کیا جاتا ہے یا عہدہ و ذمہ داری دی جاتی ہے، مجھے کہاں جاتا ہے کہ آپ کمانڈ ہو اگر میرے ذہن میں سب سے پہلے یہی آتا ہے کہ یہ ایک رتبہ، شرف، دستار، معتبری، نام و شہرت ہے تو میں اسی دائرہ کار میں رہونگا، اسی گول دائرے میں مَیں گھومتا رہونگا اور خوش رہونگا۔ اسی دائرہ کار میں ہم جنگ اور خود کو دیکھیں گے باقی جتنی بھی ضروریات ہوتی ان کو ہم پورا نہیں کرینگے، ان پر توجہ نہیں دیں گے پھر نتیجہ ساتھیوں کے نقصان کے طور پر سامنے آتی ہے، لاپرواہی، بے خبری، آزاد خیالی کے طور پر نتیجہ آئے گی اور ہم اپنا کام نہیں کریں گے، جہد یا جنگ کو ہم آگے نہیں لے جائیں گے، ہم کر بھی نہیں سکیں گے کیونکہ ہم اس حوالے سے غور نہیں کریں گے۔ اس وقت تک جب ہمیں ذمہ داری دی جاتی ہے کہ آپ کمانڈ ہے ہم اس دن اسی فکر، سوچ و جستجو میں لگیں کہ اب میرے اوپر بڑی ذمہ داری، بڑی چیلنج آچکی ہے میں اپنی ذات کو بھول کر غور کروں کہ اب ہمیں اس علاقے میں کیا کرنا ہے، اپنے ساتھیوں کو کیسے سنبھالنا ہے ان سے کیسے کام لینا ہے، کس طرح کے فیصلے لینے ہیں، ہمیں دشمن کو کیسے ضربیں لگانے ہیں، ہمیں اپنے وسائل کیلئے کیا کرنا ہے، ہمیں دشمن کے پروپیگنڈے کا جواب کیسے دینا ہے، ہمیں دشمن کے بارے میں کتنی معلومات حاصل ہے، ہمیں علاقے کے بارے میں کتنی معلومات ہے، ہم کیسی حکمت عملی اپنائے کہ اس سے دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچے اور ہمیں کم نقصان ہو۔ پھر چوبیس گھنٹے ہماری سوچ یہی ہوگی، ہم یہ نہ سمجھے کہ میں اس عہدے پر آیا ہوں میرا نام کیسے لیا جاتا ہے؛ کس شان سے لیا جاتا ہے، لوگ کیا کہتے ہیں، میرے ساتھی کیا کہتے ہیں، مجھے ساتھی کس طرح شرف بخشتے ہیں، مجھے کس نام سے پکارا جاتا ہے، میں کس طرح دکھائی دیتا ہوں، میں کس طرح کے کپڑے پہنوں، میں کس طرح کا بندوق اٹھاؤ، میرا چلنا کیسا ہے۔ جب ہم اس دائرے سے نکلتے ہیں اور حقیقی حوالے سے جان جاتے ہیں کہ کمانڈ کیا ہے، گوریلا لیڈر کیا ہے، لیڈر کیا ہے تو ہم ان سب چیزوں کو نظر انداز کرکے یہ سوچتے ہیں کہ میرا کام کیا ہے، میری ذمہ داری، میرا فرض کیا ہے، یہ محض دستار نہیں کہ مجھے دیا گیا ہے، میری ذمہ داریاں ہیں، میرے ساتھ جانیں وابسطہ ہیں، میرے ساتھ قوم کا حوصلہ، بقاء اور شناخت بندھے ہیں۔
“اب ہمیں اپنے کام کو کیسے کرنا ہے، اس کو کیسے خوبصورت کرنا ہے۔ اس کی ہم کوشش کریں گے تو نتیجہ آئے گا پھر ہم دشمن کے چال، مکاری، حکمت عملیوں کو سمجھ سکیں گے جب یہ چیزیں نہیں ہونگی اور مجھے اس وجہ سے کمانڈر کیا جاتا ہے کہ علاقے میں میری پہچان ہے، مجھے اس وجہ سے کمانڈ بنایا جاتا ہے کہ میں نے بہت سی قربانیاں دی ہے، میں بڑے عرصے سے جنگ کا حصہ ہوں، میں مخلص ہوں، میرے لوگ شہید ہوئے ہیں، میری سیاسی پہچان ہے، میری ادبی پہچان ہے، مجھے اس لیا عہدہ دیا جاتا ہے کہ میں تنظیم کیلئے بڑی فنانس جمع کرسکتا ہوں، میری قبائلی پہچان ہے۔ یہ تمام تنظیم کی ضرورتیں ہیں ان کی اہمیت بھی ہے لیکن کمانڈر کی ضروریات مختلف ہوتے ہیں، اس کی Requirement مختلف ہوتی ہے، اس کی سائنسی ضرورت مختلف ہوتی ہے۔ مخلصی، قربانی، بہادری سر آنکھوں پر لیکن اس کیلئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے آپ کو ان ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ تحریکوں میں انہی بنیادوں پر مذکورہ بنیادوں پر عہدہ و ذمہ داریاں دی جاتی ہے تو اس کیمپ، اس ریجن، علاقہ، شہری نیٹورکس کے نتائج بھی ویسے ہوتے ہیں کہ آپ نے کسی کو سفارش، رشتے، قبائلی پہچان، چاپلوسی، مراعات، ذاتی دوستی یا منظور نظر ہونے کی بنیاد پر مسلط کیا ہے۔ اس کو آپ اٹھاتے ہیں وہ ان ضروریات پر پورا نہیں اترتا ہے اور سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ پھر ہر شخص یہی کوشش کرے گا، ہر سپاہی ناسمجھی و بے شعوری میں یہی کوشش کرے گا کہ کمانڈ بننے کا طریقہ کار یہ ہے وہ بجائے کوشش، ذہنی و جسمانی حوالے سے محنت کرنے یا ماہر بننے کی کوشش نہیں کرے گا وہ کوشش کرے گا کہ مذکورہ طریقہ کار ٹھیک ہے جیسے کہ پاکستان میں ہوتا ہے، ایک شخص دیکھتا ہے کہ وزیراعظم بننے کیلئے پاکستان سے کتنی وفاداری کرنی ہوگی، کتنے بلوچ مارنے ہوں گے کیونکہ معیار یہی ہے۔ کل ہمارے یہاں بھی ہر کوئی یہی کوشش کرے گا کہ مجھے یہاں آنے کیلئے یہ شارٹ کٹ راستے اختیار کرنے ہیں۔”
بی ایل اے سربراہ نے مزید کہا کہ اس دن جب آپ یہ معیار رکھتے ہیں کہ آپ کی مخلصی، سنگتی، ایمانداری، جذبہ، سینئر ہونا سب چیزیں سر آنکھوں پر لیکن ایک جگہ پہنچنے کی ضروریات کیا آپ کو ان سب کو پورا کرنا ہے پھر آپ اس مقام پر آ سکتے ہیں۔ اگر آپ کا کمانڈ باصلاحیت ہوا، جو جغرافیہ کو سمجھتا ہے، اس کیساتھ ایک بڑی فکر ہے، وہ گوریلا جنگ کررہا ہے جو ظاہر نہیں ہے، وہ مذکورہ تمام چیزوں کو سمجھتا ہے، وہ تمام ہتھیاروں کے استعمال کو جانتا ہے، وہ دشمن پر حملے کو سمجھتا ہے، وہ طریقہ کار کو سمجھتا ہے اگر ابتداء میں وہ ہنر مند نہیں ہے تو بھی وہ اس حوالے سے کوشش کرے گا، وہ ایمانداری کیساتھ محنت کرے گا کہ اس فن، مہارت کیلئے، اس کو سمجھتا ہے کہ کمانڈری کی جو ذمہ داری دی گئی اس کو کیسے بہتر سے بہتر نبھانا ہے۔ جبکہ دوسری جانب وہ جانتا ہے کہ خوشنودی سے میں خود کو کسی پوزیشن پر رکھ سکتا ہوں، ہوسکتا ہے کہ آگے مجھے کوئی اور عہدہ مل جائے پھر وہ اسی سبجیکٹ پر کام کرے گا اسی پر محنت کرے گا کہ مجھے کس طرح سینٹرل کمان و لیڈر کو خوش رکھنا ہے، دوسرے حقیقی ضرورتوں کو پورا نہیں کرتا ہے، جس سے تمام ساتھی زد میں آتے ہیں، تمام ساتھی نقصانات اٹھائیں گے پھر وہ اسی کو نام دیتا ہے کہ تحریک ہے، جنگ ہے؛ یہ نقصانات جنگوں میں ہوتے ہیں، غلطی ہوئی تو اس کو بھی نہیں مانتا دلائل دیتا ہے لیڈر بھی اس کے لیے دلائل دیتا ہے۔
“یہ سب سے ضروری کہ کسی کمانڈ کا انتخاب ہو، فنانس کا انتخاب ہو، صحافت کا انتخاب ہو، ہر چیز ہو وہ تجربے کی بنیاد پر ہو اگر تجربہ نہیں ہے تو وہ کوشش کرتا ہے، تحریک کے ہر فیلڈ، ہر جز، جتنے بھی کام ہورہے ہیں لیکن شرط یہی ہے کہ اس میں وہ خصوصیات موجود ہو اگر مکمل نہیں تو کم ہو لیکن اسی بنیاد پر کسی کو عہدہ یا پوزیشن دیا جائے۔ یہی چیزیں دیکھی جاتی ہے، ان ہی چیزوں کو ہمیں اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے۔