بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ 28 مئی 1998ء کو چاغی میں ہونے والے ایٹمی دھماکوں کی قیمت بلوچستان کے باسی آج بھی اپنی زندگیوں سے ادا کر رہے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں بلوچستان بھر میں لوگ ایٹمی دھماکوں کی تابکار شعاعوں کے سبب کینسر سمیت دیگر موذی امراض کا شکار ہیں۔ حکومتی سطح پر آج بھی بلوچ نسل کش پالیسیوں کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے انہیں علاج و معالجے کی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا گیا ہے۔
مرکزی ترجمان نے کہا کہ بلوچ سرزمین پر یہ ایٹمی دھماکے نہ صرف بلوچستان میں زندگی کے زیاں کا سبب بنے بلکہ بہ یک وقت یہ ریاستی نسل کش اور فطرت دشمن نفسیات کو بھی عیاں کرتے ہیں، جہاں ریاست محض طاقت کے بے دریغ استعمال اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ہولناکیوں میں اپنی بقا دیکھتی ہے۔ آج بھی پنجاب کے زیر انتظام بلوچ رہائشی علاقوں میں یورنیم کی کھدائی کے سبب ہزاروں کی تعداد میں لوگ کینسر جیسے خطرناک امراض میں مبتلا ہیں لیکن ریاست آج بھی انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے ان فطرت دشمن اور انسان کُش اقدام پر فخر مند ہے۔
مرکزی ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچ ثقافت تاریخی طور پر فطرت دوست ثقافت رہی ہے، اور فطرت کے ساتھ جڑت میں بلوچ تہذیب نے نمود پائی ہے، بلوچ سماج کی طرز زندگی کے تعین میں فطرت کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ مرکزی ترجمان نے کہا کہ یہ ایٹمی حملہ بلوچ کی ہزاروں سالوں پر محیط تاریخی و تہذیبی زندگی پر حملہ ہے۔ جو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا، بلکہ اِس کے برعکس فطرت دوست اور انسان دوست اقدار پر کھڑے رہ کر ریاستی نسل کش نفسیات کے خلاف سراپا مزاحمت رہیں گے اور بلوچستان میں اِس ریاستی حملے کو ہمیشہ تاریخ کے سیاہ باب کے طور پر یاد کیا جائے گا۔