فتح اور فتح اسکواڈ
تحریر: کوہ دل بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
ایک دن ایک خبر جنگل میں آگ کی طرح لوگوں میں پھیل گئی کہ بولان کے پہاڑی سلسلوں میں فرنٹیئر کور پوسٹ پر نامعلوم مسلح افراد نے دھاوا بول کر وہاں موجود فوجیوں کو ہلاک کرنے کے بعد اس پر اپنا قبضہ جمائے رکھا اور بعد ازاں سارا اسلحہ ضبط کرکے اپنے ساتھ لے گئے، میرے اندازے کے مطابق یہ تیئیس سالہ مسلسل جنگ میں شاید مارگٹ قبضے کے بعد بولان میں دوسرا قبضہ تھا، جس میں پوسٹ پر پورا قبضہ کرنا اور اسلحہ اپنے ساتھ لے جانا شامل تھا، اس کے بعد ہر کوئی اپنے دیوان گاہوں اور محفلوں میں یہی امر دُھرا رہا تھا کہ جنگ میں اب کی شدت اپنی راہ بنائے گی، مدت سے جو خاموشی نے اپنا پناہ لیا تھا آج بہت بڑے صدا کی شکل میں سامنے آرہا ہے، ہر کوئی یہی امید لئے بیٹھا تھا کہ جنگ کی اس شدت میں لازم کسی بڑے کردار کا ہاتھ ہے ضرور کسی باصلاحیت کردار نے یہ ڈوری اپنے ہاتھوں میں تھام لیا ہے۔
بلوچستان میں آزادی کے راہ پر گامزن صفوں میں دراڑے ہونا بھی شروع ہوچکا تھا معطلی و بے دخلی کا قصہ ہر چارسمت جاری تھا، ایک جانب امید کی خورشید ڈوب رہا تھا مایوسی پھیل رہی تھی جبکہ دوسری جانب ایک روشن کرن کی نوید ہونا چاہتا تھا، تحریک میں شدت کی ایک ابھار کا نمود ہو رہا تھا ہر کوئی اسی کشمکش میں مبتلا تھا کہ اس شدت کے پیچھے کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے،
استاد اسلم؟
نہیں! ہو ہی نہیں سکتا اب اس کے ہاتھ کچھ نہیں بچا.
مخالف گروہ؟
ہو سکتا ہے کیونکہ اتنے طویل وقت میں کوئی محاز آرائی نظر نہیں آرہی تھی شاید اب کے بار جو سامنے آیا ہے اس کے پیچھے انہی کا ہاتھ ہو سکتا ہے، کیونکہ دوسری سمت ہاتھ خالی ہیں، لیکن پلڑا اچانک دوسری جانب بھاری ہوکر پلٹا تصورات و تجزیات سارے رد ہوئے ایک دن خبر آن پہنچی کہ بی ایل اے ترجمان (جیئند) نے اس قبضے کی قبولیت اپنے نام کردی ہے، پھر سے تنقید کا ایک دور شروع ہوجاتا ہے کوئی کہتا ہے اس حملے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں وغیرہ وغیرہ اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، لیکن جنگوں کا سلسلہ شدت پکڑتا ہوا سامنے آرہا تھا کہیں پر فدائی حملہ، کہیں پر گھات تو کہیں پر بارودی سرنگوں کا پھٹنا، کئی سالوں کی خاموشی دھماکوں کی گونج میں ٹوٹ رہا تھا کہ ایک دن نیوز چینلوں پہ یہ خبر چلنے لگی کہ چیئرمین فتح مچھ محاذ پر دشمن سے دوبدو لڑائی میں باقی سنگتوں کو گھیرے سے نکال کر خود شہادت کا رتبہ حاصل کرلیا ہے، حلق میں پیوست آخری گولی فلسفہ امیری پر رواں چیئرمین فتح اپنے جوش و ولولہ لپیٹ کر ہمارے حوالے کرکے جسمانی طور ہمیشہ کیلئے ہم سے جدا ہوگئے۔
جب قوم امید و نااُمیدی کی کشمکش سے گزر رہا تھا اُس مایوسی و ناامیدی کو ختم کرنے فتح نے ہر اول دستے میں شامل ہوکر اپنی بہادری اور جنگی مہارتوں سے لیس سالوں سکوت کے بعد جو صدا قوم کو سنائی اُس پر بلوچ نوجوان لبیک کہہ کر آج بھی فرنٹ لائن پر وہی جنگی فن کا مظاہرہ کرکے دشمن کو اُن کے کمین گاہوں سے نکال کر بھاگنے پر مجبور کر رہے ہیں، جس پر چیرمین فتح نے راہ بنائی، فتح کا ہر اول دستے میں شمار ہونے کے بعد پہلا قدم اور پہلی گولی نے پانسہ ہی بدل دی، فتح کے بھادری کے قصے لوگ بلوچستان کے گلی گلی، نگر نگر، چار سو، ڈگر ڈگر سننے اور سنانے لگیں، فرنٹ لائن پر اپنے ہنر آزمانے والا فتح ہر کسی کا فکری و نظریاتی سنگت بن گیا، مچھ محاذ پر شہادت کا رتبہ پانے والا فتح وہی ماہر جنگجو ہے جو بولان ہرنائی میں ایف سی پوسٹ پر قبضے میں دشمن افواج کے کانوں کے قریب جاکر اُن کے سینوں میں گولیاں گاڑ دی جس سے باقی سنگتوں کو حوصلہ ملا اور دشمن شکستِ فاش ہوکر اپنے بیرکوں سے بھاگنے پر مجبور ہوئے اور کچھ مارے گئے آج ہر بلوچ نوجوان فرنٹ لائن اور ہر اول دستے میں شامل ہونے کا عزم لئے محاذوں پر پہنچنے لگیں ہیں، جس کی سمت فتح نے ہمیں دکھایا ایک لمبے عرصے کی جمود کو توڑ کر قوم کے نا اُمیدی کو مٹا کر امید کی ایک لہر بلوچستان میں ہر طرف فکر و نظریات کے پیمانے کو توازن بخشا اُس کے بعد بولان میں کئی اہداف پر شدت کے ساتھ حملے ہوئے ہار قابضین کا مقدر بنتا گیا فوجی پوسٹوں پر قبضوں میں تیزی آتی گئی یہ سلسلہ اپنا سر جوڑتا ہوا کاہان تک جا پہنچا، یہ شدتِ تپش رکا نہیں پھر بولان مارواڑ میں اپنے پنجے گاڑ دیئے جس میں دشمن کو بہت بڑے نقصان سے دو چار ہونا پڑا، اسی دوبدو لڑائی میں بی ایل اے کے تین ساتھی شہید آفتاب جتک ، شہید شاویز زہری اور شہید ہنگل مری شہادت کے بُلند رتبے پر فائز ہوئے، دشمن کے خلاف اس شدت بھری بڑے آپریشن کے بعد فتح اسکواڈ کا نام سامنے آیا جو شہید چیئرمین فتح قمبرانی کے نام سے منسوب تھا، شہید ہنگل چیئرمین فتح کے نقشِ قدم پر کئی معارکہ آزمائیوں سے چلتا گزرتا ہوا آخر کار یہی اول دستے کے صفوں میں شامل ہوتا دکھائی دیتا رہا، کاہان ہو یا بولان تاوقت آخر وہ اسی راہ کا سپاہی ثابت ہوا اور عظیم کردار کا مالک بن گیا، شہید شاویز نے کامیابی کا پہلا قدم اُٹھا کر گولیوں کی بوچھاڑ اپنے نازک جسم میں روک لیا اور باقی سنگتوں کیلئے راہ ہموار کردی، شہید آفتاب نے دشمن کے کمین گاہوں میں گھس کر جزبہِ فتح کو پھر سے تاابد زندہ رہنے کی آکسیجن فرہم کردی اسی طرح تین ستاروں کی روشنی بولان کو اُجالا کردیا، فتح کے ہمفکروں نے نئی تاریخ کی بنیاد ڈال دی اور دشمن کے صفوں میں خوف کا عالم برپا کردیا، یہ سلسلہ آج بھی وہی جوش و خروش جزبوں کے ساتھ جاری ہے، وہی جزبہ، وہی چست و چالاکی میں موجود جنگی ہنر اور وہی شدتِ تشنگی جس کی آرزو و تمنا اور بجھ جانا آزادی یا پھر مرگِ شہادت کے فلسفے پر گامزن رہتے ہوئے پوری ہو جاتی ہے.
عشقِ وطن کے سازندہ کا کوئی تار چھیڑے تو رقص بنا سرمچاری ادھورا رہتا ہے، فتح نے ان جنگی تاروں کو چھیڑا جس پر آج ہر جنگجو ہر سرمچار محو رقص ہے، کوئی کہے کہ جنگ اور موسیقی میں واضح فرق ہے تو یہ اُن کا اپنا زاویہ نظر ہو سکتا ہے لیکن یہ دیکھنا پرکھنا بھی لازمی قرار پاتا ہے کہ جنگ اگر وحشت ہے تو ایک آرٹ بھی ہے، جنگ ظالم شے ہے تو جنگ نجات بھی ہے، جنگ نہ ہوں تو امن قائم ہو ہی نہیں سکتی موسیقی امن کا پیغام ہے جبکہ جنگ کا بھی یہی جمالیات ہے، جنگ بھی امن کیلئے ہے فرق بس اتنا ہے وہاں طنبورہ بجتی ہے یہاں بندوقوں کی نال، وہاں کوئی امن میں رقصاں ہے یہاں سرمچار امن کیلئے رقصاں ہے، دنیا کے عظیم ترین قوموں نے جنگ کے بعد مہذب ہونا سیکھا، اخلاقیات کے اعلیٰ معیار پر پہنچے، اور امن قائم کر دیا، فتح کا پہلا قدم اور پہلی گولی بلوچ قوم کے بقا، تشخص، امن، خوشحالی، وطن دوستی اور تہذیب یافتہ ہونے کا ثبوت چھوڑا آج جس پر ہر بلوچ سرمچار محو سفر ہے، آزادی کے منزل پانے کیلئے رواں اس راہ پر گامزن ہر کردار پر روشنی ڈالنا فرض بنتا ہے قلم و سیاہی کا حق ادا ہم جیسے ادنیٰ لکھاریوں سے نہیں ہو سکتا لیکن امتیاز و میرل نثار کا دیا ہوا قلم زنگ آلود نہ ہو اس لئے اس تحریک کے ہر کردار پر لکھنا میرے لئے فرض ہے تاکہ قرض کا چکتا ہو، فتح کے سنگتی کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، جب مارواڑ حملہ دشمن پر قہر بن کر گرتا ہے تو وہاں بھی جزبہ فتح نظر آتا ہے دشمن کے جانب نزدیک لے جانے والا پہلا قدم فتح کے سنگتی کا جراّت مندانہ روپ ہے، دشمن کے بیرکوں میں گھس کر مارنا فتح کے ہنر آزمائیوں کا عکس ہے، دشمن کو نیست و نابود کرکے سارا اسلحہ ضبط کرنا بھی فتح کے بھادری کا ناختم ہونے والا قصہ ہے، بولان میں فتح آفتاب کے روپ میں ہے تو مکران میں ممتاز کے روپ میں یہی جنگ کا حسن فتح کی دِین ہے اور اسی طرح یہ تسلسل جاری ہے، بولان پھر سے فتح کی جستجو اور تین ستاروں کی اُجالے میں شعور و جنگی ہنر بانٹتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، فتح کے کاروان پر پھر سے قلم آزمائی چاہتا ہے.
شہید شاہد در بی بی عرف دُرا مکران تربت کے دور دراز دیہی علاقے شاپک سے تعلق رکھتا تھا جس کے گھر میں اُس کےلئے کسی چیز کی کمی نہیں تھی، ایک سیر آسودہ فیملی میں رہ کر بھی غلامی کے جال میں پھنسا ہوا پرندہ خود کو محسوس کرتا تھا، شاپک میں خونی آپریشنز، ریاستی بربریت اور لوگوں کو اپنے ہی سرزمین سے بےدخل کرنے کا سارا منظر دُرا نے دیکھا، گورنمنٹ شاپک ہائی اسکول سے اپنا بنیادی تعلیم حاصل کی، یہی دور تھا شاپک، ڈانڈال اور گرد و نواح میں ریاستی بربریت عروج پر تھا پورا گاؤں نکل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے ان جنگی متاثرین میں شہید دُرا کا فیملی بھی شامل تھا، دُرا نے اپنا باقی تعلیم تربت شہر میں پورا کرنا چاہا عطا شاد ڈگری کالج سے فارغ ہونے کے بعد پنجاب کا رُخ کیا تاکہ تعلیم کی تشنگی پوری ہوں، لیکن اُس نے وہاں جاکر دیکھا اور محسوس کیا کہ ایک غلام بلوچ اور ایک پنجابی میں واضح فرق ہے کہ یہاں میرے گاؤں کو توپوں کے نالوں پہ رکھا گیا ہے جبکہ وہاں گولی، بندوق، توپ وغیرہ جیسے ہتھیاروں سے لاواقف لوگ صرف ترقی ترقی کا گن گاتے ہیں ہر کوئی اپنا آزاد زندگی جی رہا ہے کوئی کسی کا پابند نہیں، دور دور تک کوئی فوجی نہ فوجی چوکیاں کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا، یہاں ہمارے جلتے ہوئے گاؤں کے راکھ ابھی تک تازہ پڑے ہیں جبکہ وہاں گیس کی فراوانی ہے ان کا موجودہ نسل راکھ اور دھویں تک سے نابلد ہیں، یہاں گاؤں کا کھٹارہ بس اور پیکپ بھی کئی فوجی چوکیوں سے تلاش ہو ہوکر گاؤں پہنچ جاتا ہے جبکہ وہاں اورینج میٹرو لائن بچھائی گئی ہے یہاں آلودگی ہمارے غلامی پر تھو تھو کر رہا تھا اور وہاں ان کی ترقی بھی ہم پر لعنت بھیجتا تھا، یہ سارا ترقی ہمارے بہتے لہو کا قیمت تھا، جب میں دُرا سے اُس کے تعلیمی سفر پر بات کرتا تو وہ پنجاب اور بلوچستان میں بہت سارے فرق واضح کرکے ہمارے سامنے رکھتا کہ ہم کہاں اور وہ کہاں.
سیاسی شعور سے لیس دُرا جب باقائدہ طور پر جنگی محاذ پر پہنچا تو اپنے ہنر و فن کا مظاہرہ کرکے تیکنیکی حوالے سے بہت سے کام سرانجام دیئے، اپنے تعلیمی ہنر کا سودا نہیں کیا اور نہ غلامی کے گود میں بیٹھ کر ایک نوکری پر سمجھوتہ کیا، اُس نے تنظیم کے بہت سے ٹیکنیکل کاموں پر اپنا وقت صرف کیا آخری وقت تک وہ اپنے کام میں محنت و مخلصی کے ساتھ جڑا رہا، جس کام کو اُسے سونپا گیا اُس پر لمحہ بہ لمحہ بڑے خلوص کے ساتھ لگا رہا جب بھی اُس کا کام کسی تیکنیکی حوالے سے پورا نہ ہوتا تو پریشان رہتا دن رات اُس کو پورا کرنے کی کوششیں کرتا ہوا نظر آتا کئی رکاوٹوں اور چیزوں کی ناپید ہونے کی وجے سے بار بار اُسے پریشانیوں کا سامنا رہا ایک سال سے زیادہ عرصے تک ایسے کشمکشوں سے گزرتا ہوا آخر کار اپنے مقصد کو کامیابی کے درپر لاکھڑا کیا، ہر وقت کہا کرتا تھا کہ یہ کام جو مجھے سونپ دیا گیا ہے یہ پورا کرکے باقی ساتھیوں کو بھی اس میں مہارتیں بانٹ کر پھر مکران چلا جاؤنگا، لیکن دُرا نے اپنا وعدہ پورا کیا اپنے تیکنیکی کام کو انجام تک پہنچاکر مکران کے بجائے فتح اسکواڈ( ہر اوّل دستہ) جوائن کرکے فرنٹ لائن کے سپاہیوں میں شامل ہوئے، جزبہِ فتح پر کاربند ہوکر دشمن کے بیرکوں میں گھس کر اُن پر برستا رہا آخری گولی تک بڑے بہادری سے لڑتا رہا فتح اسکواڈ کا دشمن کے خلاف ولی تنگی آپریشن میں تین ساتھی شہید ہوئے اور شہید دُرا انہی میں سے ایک تھا، شاہد عرف دُرا نے پدر سری کے خلاف یکسر بغاوت کی اور ایک ایسا تاریخ و فلسفہ بناکر قوم کیلئے چھوڑا جو رہتی دنیا تک باقی رہےگا، اپنا نام ماں کے نام سے جوڑ کر دُرا شاہد ابن در بی بی بن گیا اب یہ رجحان سرمچاروں میں نظر آنا شروع ہوا ہے یہ فلسفہ دُرا کی دِین ہے.
فتح اسکواڈ کے شہید ہونے والے ساتھیوں میں دوسرا ساتھی ڈیرہ غازی خان کوہِ سلیمان سے تعلق رکھنے والا شہید فیض احمد بزدار عرف دلجان تھا جس نے فتح کے سنگتی کا حق ادا کرتے ہوئے شہادت نوش کی اور یوں بولان پھر سے جوش و جزبہ اور شعور بانٹنے لگا، دلجان کے پُر مہر لمحوں کو میں اگر اکھٹا کرنے لگ جاؤں میرے قلم کے سیاہی تھم جائنگے لیکن وہ ختم نہیں ہونگے ان کرداروں پر لکھنا آسان نہیں دل کے تہہ خانوں سے خون نکال کر قلم کو بھرنا پڑتا ہے ان پر لکھتے لکھتے جب پیاس لگ جائے تو اپنے آنسوؤں کو پینا پڑتا ہے شہیدوں کے کردار نہ کسی سے ناپا جاسکتا ہے نہ تولا جا سکتا ہے جتنا بھی ہم اپنے لفظوں کو ان کے پیروں تلے پھولوں کی طرح نچھاور کر دیں کم ہیں بلکل نہ ہونے کے برابر ہیں، دلجان کے مخلصی و محنت اس جہدِ مسلسل میں بہت قریب سے میں نے دیکھا خطروں اور مُشقتوں کو آنکھیں دکھانے والا یہ کوہ سلیمان کا سورما میرے تعریف کا بالکل محتاج نہیں، یہ اپنے بدل آپ ہیں، ہنس مکھ چہرہ، دراج بدن، پہلوانوں جیسا ہاٹی دلجان مزاق مزاق میں کئی کہانیاں سناکر محفلیں جماتا تھا، سردیوں کے راتوں میں لکڑیاں لے آکر آگ جلاتا تاکہ سنگتوں کی دیوان میں گرماہٹ ہو عشقِ وطن پر شعر و شاعری ہو جب بھی مجھے دیوان میں آواز دے کر بُلاتا تو کہتا “بیاہ سنگت کھل پیداک ایں بیاہ من و تو آھو خنی بر شعر جنا” شبیر آجو کا یہ شعر بہت پسند کرتا ہر وقت مجھے کہتا میرے لئے یہ گایا کرو اور ہم سب مل کر گاتے محفل دوبالا ہوتا، یہ دلجان کے مہر و محبت تھے سب ساتھی اکھٹے ہوکر رات دیر تک مشاعرہ کرتے یا کسی موضوع پر باتیں کرتے لیکن محفلوں کو سجانا دلجان کا ہنر تھا سب کو آواز دے کر بلاتا اکھٹا کرتا دیوان کو شوخی مہیا کرتا،شہروں میں زندگی گزار کر تعلیم حاصل کرکے یونیورسٹیوں کے ہاسٹلوں میں اپنے دوست یاروں کے ساتھ شب و روز گزارنے والا دلجان اپنے بلوچی رسم و روایات پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرتا تھا، جب بھی بلوچ ثقافت و رسم و روایات پر بات ہوتی تو وہ ڈٹ کر کھڑا رہتا کہ اگر ہم ان سب چیزوں کو چھوڑ کر یورپ پر استعفادہ کرینگے تو ہم کیا ہونگے ہمارے پاس بچےگا کیا ہم جنگ کیوں اور کس چیز کیلئے لڑ رہے ہیں صرف نام بلوچ کیلئے تو جنگ نہیں ہو رہا ہم بلوچیت و بلوچستان کیلئے جنگ لڑ رہے ہیں، بلوچی روایتوں میں چندے خامیاں ہے میں مانتا ہوں لیکن بلوچوں کے روایات و تہذیب اپنا ایک تاریخی حیثیت رکھتے ہیں ہم اپنا سب کچھ چھوڑ کر یورپ سے کیوں متاثر ہوتے ہیں ہم یورپ سے کیونکر سیکھیں حق تو یہی ہیکہ ہم اپنی حقیقی روایات دنیا اور اپنے لوگوں کے سامنے لے آئیں تاکہ دنیا ہم سے سیکھیں کیونکہ ہم مہر گڑھ تہذیب کے مالک ہیں، میں نے کبھی بھی نہیں دیکھا دلجان بلوچی رسم و رواج، کلچر اور بلوچی روایتوں کو چھوڑ کر کسی دوسرے قوم کے طریقے کو اپنانے کے بات پر متفق ہوا.
دلجان ایک جانباز سپاہی کے ساتھ ساتھ ایک باشعور و ہنر مند حوصلوں اور جزبوں کا پیکر ساتھی تھا، وہ کبھی کبھی قلم آزمائی بھی کیا کرتا تھا اُس نے ایک شہید ساتھی پر ایک تحریر لکھا تھا جو مجھے لاکر دیا کہ آپ اس کو پڑھ کر اس کی کمیاں دیکھ کر نکالیں تاکہ میں اس کو پورا کرسکوں وہ تحریر آج بھی میرے پاس رکھا ہوا ہے لیکن دلجان کے لفظوں کو توڑنا میرے بساط میں نہیں جب اس کا لکھا ہوا تحریر پڑھتا ہوں ایسا لگتا ہے دلجان خود مجھ سے مخاطب ہے اُس کے مخلصی و ایمانداری اس تحریر کے ہر لفظ میں پیوست نظر آتا ہے آج تک میں نہ اس کو توڑ سکا نہ ترتیب دے سکا، آپ مہان تھے دلجان آپ کی قدر کوئی بولان کے سنگلاخ پہاڑیوں سے آکر پوچھے، آپ کے بہادری کے قصے شاید مجھ سے بیاں نہ ہو پائے لیکن بولان کا سینہ مضبوط ہے کوئی بھی آپ کے کردار کو جاننے کی تمنا کرےگا اُمید ہے وہ کوہِ سیاجی، کوہ سلیمان یا کوہ شاشان سے بولان ضرور آئےگا، آپ کے ناتمام قصوں کا قصیدہ ہم سے لکھا نہیں جاسکتا آپ اور آپ کے بندوق پر جو تم نے تحریر لکھا تھا وہ میں پڑھ نہیں سکا البتہ آپ کے تحریر کا حوالہ مجھ تک ضرور پہنچا آپ اور آپ کے بندوق کا مکالمہ چیخوف کے افسانوں کی طرح دل کو چھونے والے لفظوں سے بنا ہوا تھا پر جنگ کے اس سفر میں یہ مکالمہ آپ کے محفل میں آپ سے سُن نہ سکا دوست.
شہید میران عرف گرو بلوچوں کے بہادری کے قصوں میں کسی صورت بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، ہر اوّل دستے کا یہ وہ نڈر سپاہی تھا جس نے بولان کے ہر محاذ پر دشمن کو دھول چٹائے، ہنگل کی طرح گرو بھی کاہان کے محاذ پہ ریاستی افواج پر آسمانی بجلی بن کر گرا کاہان میں گرو نے جب قدم رکھا تو چین سے نہیں بیٹھا سدو مری جب مکران جاکر ریاست پر وحشت بن کر ٹوٹ پڑتا ہے پھر گرو کیوں کاہان میں پنجابی استعماریت کو آسانی سے لوٹ کھسوٹ میں موقع دے، جب گرو نے واپس اپنا قدم بولان کے مقدس زمین پر رکھا وہ کبھی بھی چین و سکون سے نہیں بیٹھا دشمن پر ضربیں لگاتا رہا آخری دم تک دشمن سے آنکھیں ملاکر بڑے بہادری سے لڑتا رہا حمل جیئند کے جزبے کو دکھاکر سانس کے آخری لڑی تک ولی تنگی مشن میں مزاحمت کرتا رہا اور شہادت نوش کی، آپ کے محنت و مخلصی اصطلاحات سے بیاں نہیں ہوسکتے میرے وطن کے سرمچاروں کا کردار عظیم ہیں اور عظیم کرداروں کا حق ادا مجھ جیسے ادنیٰ قلم کاروں سے خدا قسم بالکل نہیں ہو سکتا، اپنے ساتھ گزرے ہوئے اُن لمحوں کو صفحہ قرطاس پر اتار رہا ہوں جو ان شہیدوں کے ساتھ بیت گئیں، شہید گرو بیرونی ملک اچھے خاصے معاش پر مزدوری کر رہا تھا لیکن غلامی ایک ترقی یافتہ ملک میں کسی غلام کیلئے وہ زہر بن جاتی ہے جو لمحہ بہ لمحہ موت کے آغوش میں دھکیلے اور واپس تکلیف دینے کیلئے زندگی میں کھینچ لائیں ایسے کیفیت میں ایک ہی راستہ بغاوت کا باقی رہ جاتا ہے اور شہید گرو اسی راہ پر اُتر کر اپنا فرض نبھایا اور ثابت قدم ہوئے.
فتح کے ہمفکروں میں سے ایک باہمت اور محنت کش سپاہی شہید کاشف شہوانی عرف روکین بلوچ تھا جو اپنے جنگی ہنر و پیشہ ورانہ صلاحیتوں سے لیس درہِ بولان کے مشن میں مجید برگیڈ کے فدائی زیشان رند عرف آفتاب بلوچ کے شہادت کے بعد اپنا پوزیشن سنبھالا ہوا تھا اس گھمسان لڑائی میں روکین نے فتح کے بہادری و ہمت کو اپناکر آگے بڑھا اور دشمن پر قہر بن کر پڑا اپنے بیش بہا جنگی حکمت عملیوں سے لڑتے ہوئے شہادت کے عظیم رتبے پر فائز ہوا، روکین کو جب پہلی بار میں نے ٹریننگ فیلڈ پر دیکھا تو اُس میں وطن پرستی و قوم دوستی کی شدت پایا، تربیتی اوقات میں روکین کو کلاس لینا بوجھ لگتا تھا ہر وقت باقی ساتھیوں کو کہتا فزیکلی ٹریننگ میں صبح شام اپنا وقت لگانے کیلئے تیار ہوں لیکن کلاسیں جیسے میرے دماغ پر بھاری پتھر بن کر گر جاتے ہیں، لیکن چندے وقت گزارنے کے بعد اپنے کلاسیں بھی پابندی کے ساتھ لیتا تھا شاید وہ باقائدہ طور پر فتح اسکواڈ کا حصہ بن چکا تھا کیونکہ فتح اسکواڈ کے اپنے نظم و ضبط، پابندیاں اور شرطیں ہیں، جب ٹریننگ سے فارغ ہوکر گشتی ٹیموں میں اپنا کام سرانجام دینے لگا تو وہ سردی گرمی پیاس بھوک اور تھکان کا واویلا کرتا ہوا بلکل نہیں دکھا اپنے کام میں مخلصی کی آخری انتہا تک پہنچتا، مجھے یاد ہے ایک دن کسی ساتھی نے روکین اور ایک ساتھی کو کچھ سامان سونپ کر بھیجا جو پانچ دن کا سفر تھا لیکن روکین اپنے سنگت کے ساتھ تیسرے روز ہمارے یہاں پہنچ گئیں میں نے پوچھا بروت(بروت ہم روکین کو اس لئے کہتے کیونکہ اُس کے مونچھے بڑے تھے) آپ لوگ اتنے جلدی آگئیں راستے میں تکلیف تو نہیں ہوئی کہنے لگا یہاں ہمارا جلدی آنا لازمی تھا اس لئے ہم اپنا دن رات ایک کرکے بھاگتے ہوئے آگئیں کہیں ہماری وجے سے کام تاخیر کا شکار نہ ہوں، قربان ایسے کرداروں پر جو تحریک و تنظیمی کاموں کو سرانجام دیتے وقت اپنے تکالیف کا پرواہ بھی نہیں کرتے تھے، جب قافلوں میں ایسے عظیم، باہمت اور دکھ و تکلیف خوش اسلوبی سے برداشت کرنے والے سپاہی شامل ہوجاتے ہیں تو اُن قافلوں کےلئے منزلیں پھول بچھاکر استقبال کرتے ہیں یہی وہ فلسفہ ہے فنِ جنگ اور مخلصی ہے جو فتح نے ہمیں اپنے مقدس سفر میں سکھایا مایوسیوں کو دور کردی اور آزادی کے راہ کو ہموار کرنے کیلئے اپنے لہو بہائے فتح کا یہ داستانِ کاروان، اُس کا فلسفہ اور آزادی کے حصول تک جاری جنگ تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ سنہرے الفاظوں سے یاد رکھا جائےگا.
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔