اتوار کے روز بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی کال پر شہر میں باڑ لگانے کے خلاف ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی جس میں خواتین، بچے، بزرگوں سمیت مختلف مکاتب فکر کے لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔
ریلی کے شرکا نے ہاتھوں میں باڑ ، بلوچ نسل کشی اور جبری گمشدگیوں کے خلاف بینرز ، پلے کارڈز اٹھاکر شہداے جیونی چوک پر احتجاج کیا ۔
احتجاجی شرکا سے بلوچ یکجہتی کمیٹی کے صبغت اللہ بلوچ اور دیگر مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک وقت میں یہاں لوگ پنجاب سے بوریوں میں پیسے بھرکر یہاں کے مقامی لوگوں سے زمین خریدنے آئے تھے ، انکے پیسے ڈوب گئے بلوچ آج بھی یہاں اپنے زمین پر آباد ہیں اور انکا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوگا ۔
انہوں نے کہاکہ وہ کہتے ہیں کہ گوادر کے لوگوں کی سیکورٹی کے لئے باڑ لگایا جارہا ہے ، اب سوال یہ ہے کہ بلوچ کو کس سے خطرہ ہے ؟ وہ خود بڑے اونچے دیوروں کے پیچھے چھپے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ بلوچ کو کسی سے خطرہ نہیں آپ آئیں گوادر کو دیکھ لیں یہاں مسجد، مندر ایک ساتھ بنے ہیں یہی گوادر کی خوبصورتی ہے۔ اگر وہ باڑ لگا کر بلوچ زمین کو ہڑپنے چاھتے ہیں تو یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔
مقررین نے کہاکہ گوادر میں باڑ لگانے سے گوادر میں لوگوں کی جانیں محفوظ نہیں ہوں گی جو جبری گمشدگیوں کا شکار ہیں۔ گوادر میں سیلاب نے ماہی گیروں کا ذریعہ معاش تباہ کر دیا، وہ بے گھر ہو گئے۔ لوگوں نے اپنی پناہ گاہیں کھو دی ہیں، مکانات سیلاب میں ڈوب گئے ہیں، جس سے وہ انتہائی بدحالی میں ہیں۔ گوادر کو چینیوں اور چین پاکستان اقتصادی راہداری کو محفوظ بنانے کے لیے باڑ لگائی جا رہی ہے، مقامی لوگوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے اور انہیں مزید خطرات میں ڈالا جا رہا ہے۔
شاہ جی نے کہا کہ حالات ہمارے سامنے شیشے کی طرح عیاں ہیں، غیر ملکیوں کے تحفظ کے نام پہ پہلے ہی گوادر دو حصوں میں بٹ چکا ہے، ایئرپورٹ سے لیکر گوادر پورٹ تک یہاں گوادر غیر مقامی افراد کے لیے سہولیات کا مرکز بن چکا ہے، اور اب یہ نوبت آچکی ہے کہ تحفظ کے نام پر شہر کو باڑ کے اندر بند کیا جارہا ہے، یہ کہاں کا قانون ہے کہ آپ اپنے تحفظ کے لیے ہمارا گھر جیل بنادیں؟ اربوں روپے کی سیکورٹی بجٹ کھانے والی فوج کو اب ہمارے گھروں کو باڑ کے اندر بند کرنے پر تحفظ ملے گا؟