رمضان المبارک کی دسویں رات میرا خواب اور تعبیر ۔ ابو معاویہ

350

رمضان المبارک کی دسویں رات میرا خواب اور تعبیر

تحریر: ابو معاویہ

دی بلوچستان پوسٹ

رمضان المبارک کی دسویں رات شروع ہونے والا تھا کہ شام کے وقت عصر کی نماز پڑھ کر ہم تھوڑی دیر بات چیت کرنے لگے کہ اچانک فیس بک کھولا تو دیکھا کہ مجید بریگیڈ کے سپاہیوں نے گوادر میں (GPS (complix Gwadar پر حملہ کیا ہے تو ساتھ بیٹھے ساتھوں نے کہا ماشاءاللہ اللہ ان کو کامیاب کرے میں چونکہ ہر وقت ظاہراً پاکستانی فوج کی حمایت کرتا تھا تو اس وقت بھی میں نے اپنے ساتھ بیٹھے ساتھوں سے کہا کہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے ان بے چاروں کو ماریں گے تو یہ سیدھا جنت میں جائیں گے تو ساتھوں نے ہنس کر کہا کہ یہ تو چائنیز ہیں یہ بھی جنت میں جائیں گے کیا ؟ خیر ہم تو کرکٹ کے نشی تھےتھوڑی دیر بعد ہم نے حسب معمول گھر کے سامنے کرکٹ کھیلنا شروع کر دیا کرکٹ کھیلتے کھیلتے مغرب کی آذان سے تھوڑی دیر پہلے ہم نے کرکٹ کھیلنا بند کر دیا تو میرے بھانجے نے کہا کہ مسلم چلا گیا میں نے کہا کہاں چلا گیا تو کہنے لگا کہ گوادر کے فدائی ساتھیوں کے ساتھ وہ بھی شامل ہے۔ یہ بات سننے کے بعد نہ جانے میں کیا کیا سوچنے لگا میرے آنکھوں میں آنسو تھے مگر میں اس لیے چھپا رہا تھا کہ گھر میں کسی کو پتہ نہ چلے خیر تھوڑی دیر بعد روزہ افطار کیا اور مسجد کی طرف گامزن ہوے نماز پڑھ کر گھر کی طرف واپس ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ گھر میں ایک خاموشی سا چھا گیا ہے۔ خیر میں بھی تھوڑی دیر وہاں بیٹھ گیا تھوڑی دیر بعد فیس بک پر تصویر آنا شروع ہوگئے کیا دیکھتا ہوں کہ مسلم کی لاش خون میں لت پت پڑی ہے میرا تو ہوش اڈنے لگا کہ مسلم کیسے فدائی کر سکتا ہے یار “پھر سوچنے لگا کہ وہ تو بچپن سے وطن پرست اور وطن کا جنونی تھا لیکن یہ میں نے کبھی نہیں سوچا کہ فدائی کرسکتا ہے لیکن وطن کا عشق جسے ہو بلا کون وطن سے زیادہ اسے پیارا لگتا ہے۔

خیر وقت گزرتا رہا نماز تراویح ہم نے پڑھ لی پھر خاموشی سے اپنے بستر پر چلے گئے لیکن مسلسل مجھے یہی خیال آتا رہا کہ ہوسکتا ہے کہ وہ خون میں لت پت لاش مسلم کی نہ ہو لیکن دیر نہ ہوئی کہ مجید بریگیڈ کے سوشل میڈیا چینل (ھکل) سے خبر شائع ہوئی کہ ہمارے آٹھ ساتھوں نے GPS complix Gwadar میں حملے کئے جس کی شناخت یہ یہ ہیں کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں مسلم ولد مولا بخش عرف سالار سکنہ میناز بلیدہ بھی شامل تھا۔ یہ خبر دیکھ ہی لیا تھا کہ میرے آنکھوں میں سے زور سے آنسوں بہنے لگے لیکن میں انہیں مسلسل چھپانے کی کوشش کرتا رہا خیر رات بر سو نہ پایا صبح سحری کے لیے اٹھ گئے سحری کی لیکن کھانا حلق سے نیچے جا نہ رہی تھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ شہید مسلم کی لاش کا کیا ہوگا کیا ریاست پاکستان کے ٹھیکدار ادارے با آسانی و حفاظت کے ساتھ شہید کی نعش اس کے لواحقین کو دیں گے یا اپنی من مانی کریں گے یہی سوچتا رہا کہ اچانک ایک گاڈی ہمارے گھر کے سامنے آیا اور میرے بڑے بھائی کو لے کر ایک ٹیم لاش لینے گوادر کی طرف گامزن ہوئےکیونکہ باقی دو فدائی ساتھی بھی میناز کے تھے “ہم بیٹھے اپنے شہید کے نعش کے انتظار میں لیکن ظالم و جابر ریاست ان کے لاشوں کو دینے سے انکاری تھا۔

خیر ہم نے ایک دن انتظار کی لیکن اسی تسلسل میں تین دن گزرنے کے بعد بھی ظالم ریاست ان کے لاشوں کو دینے سے انکاری تھا لیکن ظالم ریاست کو یہ نہیں پتا تھا کہ بلوچ قوم ہمیشہ اپنے شہیدوں کو ہی اپنا محافظ سمھجتے ہیں ہیں “لواحقین کو رمضان المبارک جیسے عظیم مہینے میں گرمی کی تپش پر بٹھا کر یہ ثابت کرنا چاہتا تھا شاہد بلوچ قوم اُن کی لاشوں کو دیکھ کر دوبارہ ایسا حملہ نہ کریں لیکن ظالم ریاست کو کیا پتا ہے کہ لاشوں کو ایسی اذیت دے کر بلوچ قوم کے دلوں میں اپنے لیے مزید نفرت برپا کر دے گی خیر جب ظالم ریاست لاشوں کی دینے سے انکاری تھا لیکن گلزار دوست کے کال پر پوار گوادر اسپتال کے سامنے جمع ہوا اور اپنے قوم کی شہیدوں کی لاشیں مانگنے لگے بلآخر چار دن گزرنے کے بعد بلوچ قوم نے زور زبردستی لاشیں وصول کر لی اور اپنے آبائی علاقے میں روانہ ہوئے ۔

صبح کے وقت جب شہید مسلم کی لاش اس کے گھر میں پہنچا تو اہل علاقہ نے واقعی اس کی لاش کو ایک شہید جیسی عزت بخشی اور سوچنے کی بات تو ہے کی ایک لاش کو چار دن رکھنے کے بعد بھی اس میں زرا سی بد بو پیدا نہ ہوئی عموماً اگر ایک لاش دو دن رکھی جائے تو وہ پوری طرح خراب ہوتا ہے لیکن وطن کی اس شہزادے کی لاش پوری طرح صحیح و سالم تھا اللہ اکبر ۔خیر تھوڑی دیر بعد نماز جنازہ کا بھی اعلان کیا گیا کہ 10:00 بجے شہید وطن شہید مسلم کو سپردِ خاک کیا جائے گا۔

جب لاش کو غسل دیا گیا تو لوگوں کی ایک ہجوم شہید کے گھر پر موجود تھا بلیدہ جیسا چھوٹا سا شہر میں کسی کے میت پر اتنی بڑی ہجوم میں نے شاہد دیکھی ہوگی لیکن وہ کیا بولتے ہیں کہ جو قوم کے لئے لڑے ہر آدمی اس کو اپنا سمجھتا ہے اسی طرح شہید کے پورے علاقے والے میت پر ایسے کھڑے تھے جیسا کوئی ان کا اپنا انتقال کر گیا ہو خیر تھوڑی دیر بعد لاش کو قبرستان کی طرف لے جایا گیا تو میت کے پیچھے پیچھے لوگوں کی ایک ہجوم تھی۔ یہ منظر دیکھ کر میری طرح ہر آدمی یہی خواہش کرتا کہ کاش یہ جنازہ میرا ہوتا خیر قافلہ مسلم آگے بڑھتا گیا اور قبرستان میں پہنچا تو لوگوں کی اکثریت تو پہلے وہاں موجود تھی کیونکہ باقی دو شہداء بھی میناز کے رہائشی تھے بس مسلم شہید کا انتظارِ تھا جوں ہی شہید کا میت وہاں حاضر کیا گیا تو باقی دو شہداء کے ساتھ شہید کی جنازہ کے لیے لوگ صف آرا ہو گئے اور امام صاحب نے نمازجنازہ پڑھائی اور شہیدوں کے جسدوں کو خاک سپرد کیا گیا اور لوگ اپنے اپنے گھروں میں گئے لیکن میرا دل آج بھی شہید مسلم کی قبر پر لٹکی ہوئی ہے کہ کاش میں بھی شہید مسلم کے ساتھ شہید ہوتا اور آج میں بھی شہید کے بگل میں دفن ہوتا لیکن یہ سعادت خوش نصیبوں کو ہی ملتی ہے خیر۔

اس کے بعد نہ سحری میں کھانے کا دل کرتا تھا نہ افطاری اور نیند تو بلکل اڑ ہی گئے ہو جیسے جب بھی آنکھیں بند کرتا تو شہید کا چہرہ میرے آنکھوں کے سامنے نظر آتا اللہ سے دعائیں کی لیکن پھر بھی یہی حالت مجھ پر طاری تھی اسی طرح تین چار دن گزر گئے کہ ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ شہید مسلم میرے بھائی کے ساتھ پیدل چل رہا ہے تو میں نے دور سے سلام کیا اور بس اتنا کہا کہ دوسری زندگی مبارک ہو ۔جب میں نے صبح اس خواب کی تعبیر جانے کی کوشش کی تو مجھے خواب کی تعبیر قرآن سے ملی ان شاءاللہ تعالیٰ ایسا ہی ہوگا”خواب کی تعبیر میں نے قرآن مجید کی اس آیات سے اخذ کی تھی کہ ( اور تم ان لوگوں کو مردہ نہ سمجھو جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں ) تو مجھے یوں لگنے لگا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلم جان کی شہادت قبول فرمائی ہے اور ہمیشہ کے لیے زندہ ہے بس فرق اتنا سا ہے کہ ہم اسے نہیں دیکھ سکتے۔ اس خواب کو دیکھنے کے بعد الحمدللہ مجھے سکون سا محسوس ہونے لگا جو بے چینی پہلے تھی اب وہ مجھ سے دور ہوگئی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔