بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں باڑ لگانے کے خلاف مختلف سیاسی رہنماؤں اور تنظمیوں کی جانب سے مذمت کا عمل جاری ہے ۔ اس حوالے سے بلوچ رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا ہے کہ سب جانتے ہیں کہ جھوٹی داستانیں بنانے اور پروپیگنڈا پھیلانے میں توانائی اور وسائل کون خرچ کر رہا ہے؟
انہوں نے کہا ہے کہ 100,000 سے زیادہ لوگوں کو پنجرے میں بند کر کے، ذلت آمیز، عوامی نقل و حرکت پر قدغن لگا کر کھلے سمندر میں ماہی گیری کے حقوق سے محروم کر کے سرمایہ کاری کو محفوظ نہیں کر سکتے۔ سیکورٹی، اور ہر کلومیٹر کے سفر کے بعد لوگوں سے مسلسل پوچھ گچھ کرنا کہ وہ کہاں سے آ رہے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں، یہ سیکورٹی نہیں ہے۔ سیکورٹی کے نام پر یہ تذلیل ہے۔
انکا کہنا تھا کہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ چین کسی بھی قیمت پر گوادر پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے اور اسلام آباد اور راولپنڈی میں فیصلہ ساز چینی سرمایہ کاری کے اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ چین گوادر کے مقامی لوگوں کو نظرانداز کرتے ہوئے گوادر کے حوالے سے وفاقی حکومت کی پالیسی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ بلوچستان اسمبلی صرف اسلام آباد اور راولپنڈی کی ایجنٹ ہے۔
انہوں نے کہاکہ تاہم، یہ جابرانہ حفاظتی اقدامات ناگزیر طور پر عوامی مزاحمت کو بھڑکا دیں گے، جیسا کہ ماضی میں دیکھا گیا ہے اور اسے دہرایا جائے گا۔ اب یہ بڑے پیمانے پر تسلیم کیا گیا ہے کہ چین ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ہے، اسلام آباد اور راولپنڈی اسٹیک ہولڈرز کے طور پر، اور بلوچستان اسمبلی ان کی پراکسی کے طور پر۔ سرمایہ کاری کا ماڈل ناقص ہے، اور یہ واضح ہے کہ سبق نہیں سیکھا گیا ہے۔
بلوچ رہنما صبغت اللہ نے کہا ہے کہ ریاست چاہے باڑ لگائے یا دیوار چین بنائے گوادر کی سرزمین کے لیے بلوچ ہر قسم کی قربانی دینے لے لیے تیار ہے، تمام بلوچ دوست سیاسی کارکنوں کو کردار ادا کرنا ہوگا۔
انہوں نے کہا ہے کہ یہ باڑ نہیں خونی لکیر ثابت ہوگا، انکا خیال ہیکہ باڑ لگاکر بلوچوں کو گوادر سے نکال دیں گے جو انکی دیرینہ خواہش ہے، بلوچ یہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دے گا۔
صبغت اللہ نے کہا ہے کہ اور باربار جو ترقی کا شوشہ چھوڑا جاتا ہیکہ گوادر کو ترقی دیں گے، پورے بلوچستان کی معدنات بشمول بحر بلوچ ریاست انکے نام پر بلوچ کے ساتھ جو دھوکہ کررہا ہے میں دوٹوک الفاظ میں یہ کہتا ہوں کہ بلوچ کو ریاست کی جانب سے دی جانے والی کسی ترقی کی ضرورت نہیں، یہ بکھاری خود بلوچستان کی وجہ سے زندہ ہے اور چل رہا ہے یہ بلوچ کو کیا ترقی دے سکتا ہے۔