امریکہ نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں معاونت کے الزام میں چار بین الاقوامی کمپنیوں پر پابندی لگا دی۔
واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کے جاری بیان میں کہا گیا کہ ان پابندیوں کا شکار بننے والی کمپنیوں میں سے تین کا تعلق چین اور ایک کا بیلاروس سے ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے بیان میں کہا گیا: ’امریکہ (بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں) کے عدم پھیلاؤ کی سرگرمیوں کی حمایت کرنے والے پروکیورمنٹ نیٹ ورکس کو روک کر عالمی عدم پھیلاؤ کے نظام کو مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہے جس کے تحت آج ایگزیکٹو آرڈر نمبر 13382 کے مطابق بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے ذمہ دار چار اداروں کو نامزد کر رہے ہیں۔‘
بیان میں کہا گیا کہ ان اداروں میں سے تین کا تعلق چین میں اور ایک بیلاروس سے ہے، جنہوں نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرامز بشمول اس کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل پروگرام کے لیے آلات فراہم کیے۔
بیان کے مطابق: ’جن اداروں کو ہم آج نامزد کر رہے ہیں ان میں بیلاروس کا منسک وہیل ٹریکٹر پلانٹ، چینی کمپنیاں لانگ شیان ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ، تیانجن کریٹیئو سورس انٹرنیشنل ٹریڈ کمپنی لمیٹڈ اور گرینپیکٹ کمپنی لمیٹڈ شامل ہیں جو ایسی سرگرمیوں یا لین دین میں ملوث پائی گئیں جنہوں نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے پھیلاؤ یا ان کی ترسیل کے ذرائع میں عملی طور پر تعاون کیا یا جن سے عملی طور پر تعاون کرنے کا خطرہ لاحق ہے جس میں پاکستان کی طرف سے ایسی اشیا کی تیاری، نقل و حمل، منتقلی یا استعمال، حاصل کرنے یا رکھنے کی کوششیں شامل ہیں۔‘
امریکی محکمہ خارجہ نے الزام لگایا کہ بیلاروس میں قائم منسک وہیل ٹریکٹر پلانٹ نے پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کو خصوصی گاڑیوں کی چیسس فراہم کرنے کے لیے کام کیا۔
اسی طرح چینی کمپنی لانگ شیان ٹیکنالوجی ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ پر الزام ہے کہ اس نے پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام کو متعلقہ سامان فراہم کیا۔
ایک اور چینی کمپنی تیانجن کریٹیئو سورس انٹرنیشنل ٹریڈ کمپنی لمیٹڈ پر امریکہ نے پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل پروگرام میں متعلقہ آلات فراہم کرنے کا الزام لگایا ہے۔
چین ہی کی تیسری کمپنی گرینپیکٹ کمپنی لمیٹڈ پر الزام لگایا کہ اس نے پاکستان کے خلائی ادارے سپارکو کے ساتھ مل کر بڑے قطر والی راکٹ موٹروں کی جانچ کے لیے آلات کی فراہمی کے لیے کام کیا۔
امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ ان پابندیوں کے نتیجے میں نامزد کمپنیوں اور ان سے وابستہ افراد کی امریکہ میں تمام پراپرٹیز اور مفادات کو بلاک کر دیا گیا ہے اور ان کی اطلاع محکمہ خزانہ کے غیر ملکی اثاثہ جات کنٹرول (او پی اے سی) کو دی جانی چاہیے۔
بیان کے مطابق: ’تمام افراد یا ادارے جو ان پابندی کی شکار کمپنیوں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ50 فیصد یا اس سے زیادہ سے زیادہ شراکت رکھتے ہیں کو بھی بلاک کر دیا جائے گا۔
’امریکی افراد کی طرف سے یا امریکہ کے اندر تمام لین دین، جو نامزد یا دیگر پابندی کے شکار افراد کی پراپرٹی میں شامل ہوں، ممنوع ہے جب تک کہ او ایف اے سی نے عام یا مخصوص لائسنس جاری کیا ہو یا اس کی جانب سے انہیں مستثنیٰ قرار دیا گیا ہو۔‘
کسی بھی بلاک شخص کے لیے یا ان کے مفاد کے لیے فنڈز، سامان یا سروسز کی فراہمی پر پابندی بھی شامل ہے۔ تاہم محکمہ خارجہ نے کہا کہ ان پابندیوں کا حتمی مقصد سزا دینا نہیں بلکہ رویے میں مثبت تبدیلی لانا ہے۔