بلوچ نیشنل موؤمنٹ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق شہدائے مرگاپ کی یاد میں ‘درس تحریک اور انقلابی تنظیم ‘ کے عنوان سے مرکزی تربیتی و تنظیمی نشستوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلے کی چوتھی اور پانچویں نشست میں شہید راشد مشکے -آواران ھنکین کے ممبران نے حصہ لیا۔
نشست سے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری قاضی داد محمد ریحان ،. ویلفئر سیکریٹری ماسٹر ظفر ، شہید راشد ھنکین کے آرگنائزر استاد مھران ، سینئر ممبر محمد رفیق اور ماما انور نے خطاب کیا۔
دو الگ الگ مقامات پر ہونے والی ان تربیتی اور تنظیمیں نشستوں میں پارٹی کے ممبران اور دوزواھان نے حصہ لیا۔
مقررین نے کہا بی این ایم ایک انقلابی جماعت ہے، شہید فدا احمد جیسے قائدین سے وراثت میں ملنے والے فلسفے ‘انقلاب در انقلاب آخری فتح تک ‘ کے تحت بی این ایم آزاد بلوچستان کے خواب کی تکمیل کے بعد بھی بلوچ سماج میں انصاف اور برابری کے حصول تک اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ بی این ایم محض ایک زمین کے ٹکڑے کی آزادی نہیں چاہتی بلکہ بلوچ قوم کی انسانی بنیادوں پر آزادی کی خواہاں ہے جہاں نسل ، طبقات اور جنسی تفریق کے بغیر سماج کا ہر شخص برابر اور آزاد ہو۔
انھوں نے کہا پارٹی قیادت کو محاسبے کے لیے ہمیشہ پیش ہونا چاہیے کارکنان کو یہ حق حاصل ہے کہ ان کی ذاتی زندگی اور کردار سے متعلق بیباکانہ سوال اٹھائیں اور کھلی تنقید کریں۔ ہم جو دعوے کرتے ہیں ان دعوؤں پر ہمیں پورا اترنا ہوگا۔ اگر ایک کارکن تکلیف میں ہے، بدحال اور بدترین زندگی گزار رہا ہے اور لیڈرشپ آسودہ حال ہے تو یہ اس کا حق بنتا ہے کہ اس تفریق پر سوال اٹھائے کہ ایسا کیوں ہے ؟ ، لیکن اس کیوں کے جواب پر بھی غور کرئے ۔ مثبت رویوں اور سوچ کو فروغ دے۔
مقررین نے کہا عام سیاسی کارکن بھی اپنے سماج میں ایک عام فرد نہیں بلکہ ایک خاص انسان ہے جو قومی شعور رکھتا ہے۔ جو اپنی ذاتی زندگی کی بجائے اجتماعی زندگی کی فکر کرتا ہے۔ اپنے خاندان اور بچوں کو وقت دینے کی بجائے اپنی توانائیاں اپنی قومی خوشحال کے لیے صرف کرتا ہے۔ ایک انقلابی سیاسی کارکن عام سیاسی کارکن سے بھی کئی زیادہ بڑی ذمہ داری کا بار اٹھاتا ہے اس لیے اسے اپنے کردار کی تعمیر بھی مزید بہتر انداز میں کرنی ہوگی۔ ایک انقلابی، جھوٹا، مکار ، بے ایمان ، بد قول ، دھوکے باز اور کرپٹ نہیں ہوتا۔ ہمیں بھی ان بری عادات سے اجتناب کرنا چاہیے۔
انھوں نے کہا خواتین ہمارے سماج کا نصف حصہ ہیں اگر ہم انھیں جدوجہد کا حصہ نہ بنائیں تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ ہم اپنی آبادی کے نصف حصے کو جدوجہد سے دور کرکے دشمن کو فائدہ پہنچائیں۔ بلوچ خواتین اپنے کردار کی سیاسی تعمیر کے ساتھ ترقی یافتہ سماج کی خواتین کی طرح اپنی صلاحیتوں کی تعمیر کریں۔ مطالعہ کریں اور سیاسی حالات سے باخبر رہیں۔ بی این ایم جس برابری کی خواہاں ہے اس میں سماج میں خواتین کی برابری کو اولیت حاصل ہے۔
مقررین نے کہا شہدائے مرگاپ کی قربانیاں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ہم ایک مشکل جدوجہد کا حصہ ہیں۔ ہمارے قائدین اور بی این ایم کے ساتھیوں نے تشدد اور قید و بند کا سامنا کیا لیکن جدوجہد سے اپنی وابستگی برقرار رکھی۔
قبل ازیں بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کے تحت شہدائے مرگاپ کی یاد میں منعقدہ ‘ درس تحریک و انقلابی تنظیم ‘ کے عنوان سے پروگرامات کے سلسلے کی تیسری نشست میں کیا گیا۔
اس نشست سے بی این ایم کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری قاضی داد محمد ریحان اور سینئر ممبر ماما انور نے خطاب کیا۔
انھوں نے کہا بی این ایم انقلابی سیاسی کارکنان کے تحفظ کے لیے قلعے کا کردار ادا کر رہی ہے۔قومی تحاریک کے دوران اقوام نے مشکل ترین حالات کا سامنا کیا۔ بلوچ قوم کو بھی ماضی اور حال میں مشکل وقت کا سامنا ہے لیکن بی این ایم کی بدولت جہدکاروں کی مشکلات میں کمی آئی ہے۔ہمیں اپنے ہر عمل کو تجزیہ کی کسوٹی سے پرکھنا ہوگا۔ہم ایک ایسا آزاد بلوچستان چاہتے ہیں جہاں برابری اور انصاف کا نظام قائم ہو۔ہمارے صفوں میں اقربا پرور ، جنگی منافع خور اور کرپٹ عناصر کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔شہید غلام محمد نے ہمیشہ کہا ہے کہ بی این ایم لیڈروں کی نہیں کارکنان کی جماعت ہے ، جو اپنی جماعت اور قومی تحریک کے محافظ ہیں۔
انھوں نے کہا خطے کے حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔طاقت کے توازن میں تبدیلی ہمارے حق میں بھی ہوسکتی ہے اور خلاف بھی لیکن ہمیں ہر صورتحال کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا ہوگا۔انقلابی کارکن اکیلے بھی رہ جائے تب بھی وہ اپنی منزل اور مقصد سے نہیں بھٹکتا۔ہمیں اپنے ساتھیوں کو منظم کرنا ہے اور اپنے لیے ہم خیال ساتھی پیدا کرنے ہیں جو تحریک کو تازہ دم رکھ سکیں۔
مقررین نے کہا تحریک میں خواتین کے کردار سے انکار ممکن نہیں بلکہ ان کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ایک ماں انقلابی درسگاہ کا کردار ادا کرسکتی ہے۔ ہمیں ہماری ماؤں نے بلوچیت کا درس دیا، سکھایا ہے کہ کس طرح ہم ایک اچھا بلوچ اور اچھا انسان بن سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی ماؤں، بہنوں اور خواتین ساتھیوں کے کردار پر فخر ہے اور دیگر اقوام بھی بلوچ خواتین کے سیاسی و انقلابی کردار کے متعرف ہیں۔خواتین کو محض خواتین کے طور پر نہیں بلکہ سیاسی کارکن کے طور پر بلوچ سماج میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا ، انقلابی ساتھی شہید لالا منیر کے کردار کا مطالعہ کریں جنھوں نے منفی طبقاتی سوچ کو شسکت دے کر بلوچ سماج میں وہ اعلی مقام حاصل کیا کہ آج آپ کو پوری بلوچ قوم اپنا ہیرو مانتی ہے۔اسی طرح شہید شیر محمد اور غلام محمد نے تمام مراعات کو ٹھکرا کر ، قیدو بند کی صعوبتیں اور جبری گمشدگیاں برداشت کرکے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا کیونکہ بلوچ قومی تحریک کے اس دور کے تقاضوں کے تحت یہ قربانیاں ناگزیر تھیں