بلوچ نیشنل موومنٹ کے شعبہ انسانی حقوق پانک نے مارچ 2024 میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اپنی تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔اس رپورٹ میں جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل کےاعداد و شمار،کیچ ، گوادر،جھاوُ،سوراب اور مستونگ میں جبری گمشدگیوں پر احتجاج اورکراچی میں زیرحراست افراد کا ماورائے عدالت قتل سمیت پاکستانی فوج اورخفیہ اداروں کی جانب سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کاجائزہ پیش کیاہے۔
پانک کے رپورٹ میں کہا گیاہے کہ بلوچستان میں پاکستانی فوج کی جانب سے جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں اضافہ تشویشناک ہے۔ ماہ مارچ کے دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں سے جبری گمشدگیوں کے 24 کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ ماہ مارچ کے دوران21جبری لاپتہ افراد ٹارچر سیلز سے رہا کیے گئے،_اسی مہینے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں کراچی سے دو جبری لاپتہ افراد کوجعلی مقابلے میں قتل کرکے لاشیں پھینک دی گئیں ۔
رپورٹ میں مزیدکہاہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیاں بلوچ سماج میں ایک مستقل خوف اور اذیت کی صورت ، ایک ختم نہ ہونے والے درد کی شکل اختیار کر گئی ہیں۔اس کے خلاف کیچ ،گوادر، جھاو ُ ، سوراب اور مستونگ جبری گمشدگیوں پر احتجاج کیاگیا، لیکن بلوچ عوام کے احتجاج اور عالمی اداروں کے بیانات کے باوجود ذرہ برابر بھی فرق نظر نہیں آتا۔ پاکستانی فوج ان افراد کو جو اپنی قوم کی بہتری کے لیے سوچتے ہیں لگاتار نشانہ بنا رہی ہے۔
جبری گمشدگی پاکستانی فوج کا بلوچ شعور کے خلاف واحد ہتھیار ہے ، جسے شاید وہ بلوچ قومی شعور کو دبانے کے لیے واحد طریقہ بھی سمجھتی ہے۔کئی سانحات پر بلوچ قوم کے پر زور احتجاج کے باوجود اس حکمت عملی کو گذشتہ دو دہائیوں سے جاری رکھا گیا ہے۔اس میں تعلیم یافتہ طبقہ اور طالب علم اہم نشانہ ہیں۔
پانک کے رپورٹ میں کہا گیاہے کہ مارچ کے مہینے میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں جبری گمشدگیوں کے خلاف لوگ سڑکوں پر نکلنے میں مجبور ہوئے جن میں بلوچستان کے علاقے سوراب میں عبدالرزاق کی جبری گمشدگی کے خلاف آر سی ڈی روڈ پر 16 گھنٹوں کی طویل احتجاجی دھرنا دیا گیا، اسی طرح بلوچستان کے ساحلی شہر پسنی کے علاقے کپر کے رہائشی زاکر ولد عبدالرزاق کی پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کیخلاف لواحقین نےکارواٹ کو احتجاجا بند کردیا، اسی احتجاج میں جبری لاپتہ لالا رفیق کے لواحقین نے بھی شرکت کی۔ بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت کے علاقے آسکانی بازار سے سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار شعیب احمد اور بالاچ کی لواحقین نے ڈاکی بازار کے قریب احتجاج دیکر روڈ بند کردیا گیا تھا۔ 8 مارچ کو پنجاب کے علاقے سرگودھا میں زیر تعلیم میڈیکل کالج میں پیتھالوجی لیب سائنسز کے طالب علم سراج خداداد کی عدم بازیابی کے خلاف تربت سی پیک شاہراہ کو اہلخانہ کی جانب بند کردیا گیا تھا۔
بلوچستان کے ضلع آواران کے تحصیل جھاو میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ طاہر بلوچ اور ظفر اکبر کی لواحقین نے آوارن اور لسبیلہ جانے والی شاہراہ پر احتجاج دیکر دھرنا دیا گیا، 24 مارچ کو بلوچستان کے ضلع مستونگ سے سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ امیر حمزہ کی لواحقین نے کوئٹہ ٹو کراچی جانے والی شاہراہ کو مستونگ کے مقام پر بند کردیا گیا تھا۔ بلوچستان میں آئے روز جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کی سنگین صورتحال پر انسانی حقوق کے اداروں کو ان معاملات پرطرف توجہ ک دینے کی اشد ضرورت ہے
پانک اپنے رپورٹ میں مزید کہتاہے کہ کراچی کے بلوچ آبادی علاقے سنگولیں لیاری سے 15 اور 17 اگست 2023 کو سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ نوجوان زمان بلوچ ولد علی نواز اور شعیب علی ولد غلام علی بابا کو سندھ پولیس اور سیکورٹی اداروں نے 27 مارچ 2024 کو منگھوپر کے علاقے نادرن بائی پاس کے قریب ایک جعلی مقابلے میں ماورائے عدالت قتل کرکے انکی لاشیں پھنک دی گئیں، جنہیں بعد میں سول ہسپتال لایا گیا ۔ ادارہ پانک کی ٹیم نے انکے رشتہ داروں سے بات کی اور ان کا کہنا تھا کہ ایک ہفتے قبل سندھ پولیس ان دونوں کے گھر آئے تھے اور کہا تھا کہ عیدالفطر سے قبل آپ کے پیارئے آپ کے پاس ہونگے لیکن بدقسمتی اب ان دونوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں ہمیں موصول ہوئی ہیں۔ خیال رہے کراچی کے بلوچ آبادی علاقوں میں اس سے قبل لاتعداد بلوچ نوجوان سندھ پولیس اور رینجرز کے ہاتھوں قتل ہوئے ہیں اور لاتعداد نوجوان من گھڑت اور جعلی کیسز کی مد میں قید ہیں۔
رپورٹ کے آخر میں کہاہے کہ سوشل میڈیا پر جو واقعات سامنے آتے ہیں، وہ محض جبری گمشدگی اور غیرقانونی حراست سے رہائی پانے والوں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں۔اس عمل کے نتیجے میں بلوچ سماج کی شعوری و سماجی ترقی کو جو گزند پہنچ رہا ہے اس پر گہری تحقیق اور علمی مشاہدے کی ضرورت ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ زندگی اور امید سے بھرپور بلوچ نوجوان تعلیمی اداروں اور شاہراؤں سے گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کیے جا رہے ہیں۔انھیں دنوں، مہینوں اور سالوں اذیت خانوں میں رکھا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک تعداد کو رہا بھی کیا جاتا ہے تو وہ ذہنی طور پر مفلوج ہوتی ہے۔ رہائی کے باوجود اس کی سوچ پر پاکستانی فوج اور اس کے خفیہ اداروں کا پہرہ ہوتا ہے۔ ان افراد کو مجبور کیا جاتا ہے ، وہ جبری جلاوطنی اختیار کریں یا پھر بلوچستان میں بلوچ قوم کے خلاف سرگرمیوں میں پاکستانی فوج کی مدد کرکے زندہ لاش بنیں یا اپنے سماج کا لاتعلق حصہ بن کر رہیں۔