اوراق پلٹتے ہوئی کہانی
تحریر: سفرخان بلوچ (آسگال)
دی بلوچستان پوسٹ
آپریشن گنجل کے ساتھ ہی پنجگور اور نوشکی کی فضائیں خون کی خوشبو سے مہک رہی تھیں، خوشبو کے ساتھ نئی امیدوں کے ایک باب کا اضافہ ہوچکا تھا، یہ کہانی کا آغاز تھا، ابھی اس کہانی میں نئے کردار شامل ہونے ہیں، کہانی جو منزل تک پہنچ کر اختتام پذیر ہوگا۔
یخ بستہ سرد رات کی تاریکی میں ایک قد آور مسلح شخص پچھلے تین راتوں سے پہاڑ کی چوٹی پر واکی ٹاکی ہاتھ میں لیئے ایک اذیت ناک انتظار میں بیٹھا ہے۔ رات نو بج کر بیس منٹ پر واکی ٹاکی کی دوسری طرف سے ایک گرج دار آواز سنائی دیتی ہے کہ “سنگت علاقہ ٹی داخل مسور” ( سنگت علاقے میں داخل ہوگئے ہیں )، پانچ لفظوں پر مشتمل برقی لہروں سے آنے والے اس پیغام نے اذیت ناک انتظار کو ایک دم ختم کردیا۔
اُس رات آپریشن گنجل سے شروع ہونے والی داستان میں ایک نئے کہانی کا اضافہ ہونے والا تھا، اس کہانی کے کردار تاریخ کے سنہرے پنوں میں اپنی بہادری کی داستان رقم کرنے کے لئے تیار تھے۔
بارہ نوجوانوں پر مشتمل مجید برگیڈ کے جنگجو جو پچھلے کئی مہینوں سے پروفیشنل کمانڈو ٹریننگ مکمل کرکے اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ کب وہ بلوچستان کی دھرتی پر اپنی بہادری کے جوہر دکھائیں گے اور بولان کا فخر بن کر دشمن پر کاری ضرب لگائیں گے۔
معرکہ کے دن کابوئی کے پہاڑوں میں سورج افق سے نیچے غروب ہو رہا تھا، اُس وقت مجید برگیڈ کے فدائی اپنے مشن کے آغاز کرنے کے لئے مچھ شہر کی طرف گامزن تھے۔ مجید برگیڈ کے فدائین دوستوں کو پرعزم آنکھوں سے الوداع کررہے تھے اور سب کے زبان پر صرف ایک ہی الفاظ تھے کہ رخصت آف اوارن سنگت۔
بلوچ لبریشن آرمی کے فتح اسکواڈ اور ایس ٹی او ایس کے تین سو سرمچار کولپور سے سبی تک مرکزی شاہرہ پر چاروں طرف پھیل کر حملہ کرنے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ وہ سب انتظار میں تھے کہ کب حکم آئے اور وہ بلوچ جنگی تاریخ کے باب میں ایک نئے فیصلہ کُن معرکہ کا اضافہ کریں۔
جنگ زدہ بلوچستان کے نوجوان اپنے زندگی کے سنہرے ایام مادر وطن کی دفاع میں قربان کررہے ہیں اور فدائی سنگت عطاء بلوچ اپنے تاریخی الفاظ میں وطن کو فدائین کی بہادری کا گواہ بنارہے ہیں کہ ہواؤں کی مہک
گوادر کی دل کی دھڑکن
بولان کی عظمت کی بلندیاں
مجھے اپنی آغوش میں سلانے والی مادِر ہنکین مکران و سیاہیجی
آپ ہمیشہ گواہی دیتے رہیں میرے آنے والی نسلوں کو کہ سرزمین کے عشق میں فدائی بن کر فدا ہونے والے سنگتوں کا لمحہ لمحہ داستانوں کا
تاکہ آنے والی نسلوں کو فخر محسوس ہو
بلوچستان صرف وسائل سے مالا مال نہیں بلکہ بہادروں کی سرزمین ہے۔
سورج افق پر غروب ہو رہا تھا اور پرسکون علاقے میں اس کا دل جذبات سے بھرا ہوا تھا اور وہ شام کی سنہری روشنی میں نہانے والی پہاڑیوں کو دیکھ کر اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں سوچ رہا تھا، جنہوں نے بلوچ وطن کی پاسبانی کے لئے بہادری سے جنگیں لڑیں تھی، بالاچ، دودا، حمل جیئند اور بلوچ خان کے کردار اُس کے سوچوں پر حاوی تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ ایک ایسے سفر کا آغاز کر رہا ہے جو اس کی طاقت اور کردار کا امتحان لے گا۔
فاروق کا دل عزم سے دھڑک رہا تھا، اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور وہ جانتا تھا کہ معرکے کا آغاز کرکے وہ تاریخ میں امر ہورہا ہے، تاریخ میں اپنا کردار خود لکھ رہا ہے۔ ایک گرج کے ساتھ، وہ دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی دشمن کے کیمپ کی طرف بڑھا رہا تھا، جیسے ہی وہ دشمن کے کیمپ کے احاطے میں داخل ہوا اس سے پہلے کہ دشمن ردعمل ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ایک زور دار دھماکہ، جس سے اندھیرے کی کوکھ سے روشنی نے جنم لیا۔ روشنی جو اندھیرے کے خاتمے کے لئے قوم کی امید ہے۔
اس لمحے، دھماکے سے، اس کے ساتھیوں کے دلوں میں امید کی ایک چنگاری بھڑک اٹھی۔ دھماکے سے اٹھنے والی روشنی امید کی کرن، ظلم کے سامنے مزاحمت کی علامت بن گئی۔
روسی کلاشنکوف، دنیا کی گوریلوں کا اہم ہتھیار اور آزادی کی تحریکوں کا علامت آج بلوچ نوجوانوں کے کندھوں پر تھے اور وہ تاریخ کے دھارا کو بدلنے نکلے تھے۔
سرمایہ داروں کے خالق امریکہ جو آزادی کی تحریکوں کا دشمن ہے، اُس کے بنائے ایم 16 ہتھیار اُسی کی اتحادی ملک کے فوج کے لئے قہر بننے والے تھے اور آزادی کے متوالوں کے کندھوں پر لٹک رہے تھے۔
مچھ شہر میں زور دار دھماکے نے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا، صدام کا ہاتھ تیزی سے اپنے بندوق کے بلٹ پر آگیا، ایک لچک دار آواز کے ساتھ بندوق کا بلٹ پیچھے گیا اور تیزی کے ساتھ چیمبر نے گولی کو پوزیشن پر لایا اور شہادت کی انگلی جیسے ہی ٹریگر پر گیا فائر پن اسی گولی سے ٹکرائی، گولی اس کی طاقت سے رفتار پکڑتے ہوئے نکلی اور سامنے دشمن سپاہی کے سینے میں پیوست ہوگئی، وطن کے جان بازوں اور دشمن کے درمیان لامتناہی جنگ کا آغاز ہوگیا۔
گوادر، پنجگور، بولان، شال بلوچستان بھر سے تعلق رکھنے والے نوخیز نوجوان قابض کے فوجی کیمپوں پر حملہ آور ہوکر ان پر قہر برسا رہے تھے۔ رات تاریکی میں بس گولیوں کی گھن گرج تھی، زمین اور آسمان کو ہلا دینے والی وہ دھماکوں کی آوازیں تھی۔
بھگت سنگھ نے کہا تھا کہ سوتے ہوئے غلام قوم کو نیند سے جگانے اور دشمن کے کانوں کو زوردار دھماکے ہی کھول سکتے ہیں اور یہی منظر مچھ میں نمودار ہورہا تھا۔
جدید اسلحہ سے لیس مجید برگیڈ کے سپاہی قابض سے آمنے سامنے نہ لامتناہی جنگ میں مصروف عمل تھے، دشمن سے شدید نوعیت کا جنگ جاری تھا، اسی دوران کے ڈی دشمن کے گولی کا نشانہ بنتا ہے اور اپنا باب مکمل کرکے کہانی کے امر کرداروں میں شامل ہوگیا، دیگر ساتھی معرکہ برقرار رکھ کر شدت کے ساتھ جنگ جاری رکھتے ہیں۔
فدائی کے ڈی ساتھ ہی حمل اور حاجز مورچہ سنبھالتے ہیں، حاجز نے فدائی کے ڈی کو سیدھا کیا اور ماتھے کو چومتے ہوئے اس کے اسلحہ و ساز سامان کو سنبھال کر مزید پیش قدمی کرتے ہیں، دشمن پر کاری ضرب لگاتے ہوئے فدائی حمل کے دائیں ٹانگ پر گولی لگتی ہے جس سے وہ زخمی ہوجاتے ہیں لیکن آخری گولی تک لڑنے کے عزم کو برقرار رکھتے ہیں۔ چاروں اطراف بس گولیوں کی گھن گرج اور دھماکوں کی آوازیں جو دشمن کے لئے قیامت خیز مناظر پیش کرتے ہیں۔
رات بھر جنگ شدت کے ساتھ جاری رہا، مجید بریگیڈ کے فدائین نے قابض فوج کو اُن کے قلعے میں گھیر کر اُنہیں بے بس کردیا تھا، دشمن سپاہی اپنی بندوقیں میدان جنگ میں چھوڑ کر فرار کی کوششوں میں دوڑیں لگا کر اپنی جانیں بچانے کی تگ ودو کر رہے تھے مگر وطن کے فرزند سرزمین کی دفاع میں سربکف ہوکر لڑ رہے تھے۔ دشمن فوج کی فوجی کیمپوں کو سنبھالنے میں ناکامی کے بعد شال سے جنگی ہیلی کاپٹر اور جیٹ طیاروں کے آمد کا آغاز ہوا۔
بلوچ وطن کے فرزندوں نے اینٹی ایئر کرافٹ گن سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے فوج کی مدد کے راستے مسدود کردیئے لیکن ہیلی کاپٹروں کی بلوچ فدائین پر فضا سے بم برسانے لگے جس سے فدائی نادر زخمی ہوئے، بندوق کو ساتھی کے حوالے کیا اور مسکراتےہوئے وطن کی مٹی کو بوسہ دے کر سرزمین کو آغوش میں لیتے ہوئے امر ہوئے۔
مجید برگیڈ کے فدائین دشمن کو ناخن چبانے پر مجبور کرچکے تھے، وہیں فتح اسکواڈ اور ایس ٹی او ایس کے سرمچار کولپور سے سبی تک اَسی کلومیٹر کے وسیع علاقے میں دشمن کے کیمپوں پر حملہ آور تھے اور شال کو سندھ سے ملانے والے شاہراہ کو کنٹرول میں لےکر آمدورفت مکمل بند کرچکے تھے۔
مچھ کی زمین پر بہادری کی تاریخ لکھی جارہی تھی بلوچ فرزند شہادت کو قبول کرتے ہوئے دشمن کو پسپا کرکے آگے بڑھ رہے تھے، شکست خوردہ دشمن بہادر سپوتوں کے سامنے ٹکنے میں ناکام ہوچکا تھا۔ بلوچ جانبازوں نے شکست و فتح کے معنی بدل دیئے ہیں۔ وہ اپنی کشتیاں جلا کر آئے تھے اور معرکے کے آغاز پر ہی دشمن کو شکست سے دوچار کرچکے تھے۔
بلوچ زمین کے بہادر سپوت مچھ شہر کا کنٹرول سنبھال چکے تھے اور گلی کوچوں میں گھوم کر بلوچ عوام سے ملاقات کررہے تھے اور یہ ثابت کررہے تھے کہ حوصلہ اور نظریہ دنیا کا سب سے بڑے ہتھیار ہے جو کسی بھی طاقتور کو شکست سے دوچار کرسکتا ہے۔
تین دنوں تک مچھ و بولان آزادی کی عشق میں سفر کرنے والے سپوتوں کے کنٹرول میں تھا۔ دشمن چاروں اطراف سے علاقے میں داخل ہونے کی کوششیں کرتا رہا مگر جیسے ہی وہ آگے بڑھتے بلوچ فرزند گولیوں کی گَھن گرج سے اُن کی سواگت کرتے اور پسپائی و شکست اُن کی مقدر بن چکی تھی۔
مچھ معرکہ پوری آب و تاب سے جاری رہا، دشمن کے کیمپ اُن کے مقتل گاہ بن چکے تھے، وطن کے فرزند قابض کے سامنے بہادری کے داستان رقم کرکے تاریخ کے سنہرے اوراق پر امر ہورہے تھے۔ آخری صبح قابض فوج سے شدید نوعیت کے جھڑپوں کا آغاز ہوا ،متعدد فوجی اہلکار ہلاک فدائین کی گولیوں کے نشانہ بنے اور ابن نور بی بی بھی کہانی کے امر کرداروں میں شامل ہوگیا۔
شیخ عطاء ءُ سائیں زیشان دشمن کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر آخری گولی کے فلسفے کو دوام دیتے ہوئے اپنے آخری گولی تک دشمن کو اُن کی بزدلی سے روشناس کراتے رہے۔
اب کہانی موت اور زندگی کے فلسفہ سے بہت آگے نکل چکا تھا، بلوچ فرزندوں کی شہادت کی انگلی دنیا کو گواہ بنا چکا تھا کہ وہ دشمن کو شکست دے کر اُس معرکہ میں کامران ہوچکے ہیں۔
شہادت کی انگلی ٹریگر پر ہے لیکن بندوق ساکن تھا، گولیاں ختم ہوچکی تھیں، شیخ و زیشان آخری بار ہمکلام ہوئے اور مورچہ قہقہوں سے گونج اٹھا، دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا، جیب میں رکھی گولیاں نکالی، بندوق کے میگزین نکال کر گولی ڈال دی اور بندوق کو پھر سے بلٹ کیا اور آخری گولی کے فلسفے کو اپناتے ہوئے اپنی کہانی کو امر کر گئے ۔
سورج افق پر نمودار ہو رہا تھا، جس نے امید کی منظر نامے پر درخشندگی پیدا کردی تھی، پھٹے ہوئے جھنڈے ہوا میں آہستہ آہستہ لہرا رہے تھے، ان کے دھاگے لڑی جانے والی شدید لڑائی کی گواہی دے رہے تھے ۔ مچھ کی ہوا دھوئیں اور بارود کی خوشبو سے بھری ہوئی تھی۔ گلیوں میں فدائین کی بہادری کے نغمے گونج رہے تھے اور ان کی جدوجہد کے داستان ہر زبان زد میں آچکے تھے۔
سورج کوہ کابوئی پر غروب ہورہا تھا، تاریخی زمین کو اپنے آغوش میں لے رہا تھا، لوگ ساتھ کھڑے تھے، فدائین کی شہادت پر شاداں تھے کہ بلوچ زمین کے فرزند قربانی کا فلسفہ زندہ کرکے امر ہوگئے تھے اور آزادی کی مشعل کو آگے بڑھانے کے اپنے عزم میں متحد تھے۔
بلوچ فدائین رزمیہ داستانوں میں ایک نئے باب کا اضافہ کرچکے تھے، یہ کہانی جاری ہے اور اس کہانی میں نئے کردار شامل ہوتے رہیں گے۔ یہ کارواں اس دن تک جاری رہے گا، جب سورج نئی امیدوں کے ساتھ کوہ مہر دار پر طلوع ہوگا اور بلوچ زمین کی آزادی کا پیام لائے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔