شہید کامریڈ نصیر آنے والی نسلوں کے لئے ایک تحریک ۔ لطیف بلوچ

205

شہید کامریڈ نصیر آنے والی نسلوں کے لئے ایک تحریک

تحریر: لطیف بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ

شہداء کی سرزمین بلوچستان اپنے فرزندوں کی بہادری اور قربانیوں سے گونجتا رہے گا۔ ناہموار پہاڑوں سے لے کر وسیع ریگستانوں تک، ہر گوشہ ان عظیم لوگوں کے جذبے اور استقامت کا گواہ ہے جنہوں نے اپنے وطن کی آزادی اور قومی وقار کے لئے اپنی جانیں نچھاور کیں۔ جو ہمیں آزادی کی بے لوث جدوجہد کی یاد دلاتی ہیں۔ بلوچستان کی تاریخ جرات، بہادری اور قربانیوں کی داستانوں سے عبارت ہے، جو اِن عظیم شہداء کے غیر متزلزل عزم کا ثبوت ہے جو اپنی قربانیوں سے نسلوں کو متاثر کرتے رہیں گے۔

شہداء کی بہادری اور قربانیوں پر غور کرنا ہمیں یاد دلاتا ہے کہ لوگ اپنے عزم اور حوصلے سے تاریخ پر گہرے اثرات مرتب کر سکتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو اس بات کی ترغیب دیتی ہیں کہ وہ جس چیز پر یقین رکھتے ہیں اس کے لیے کھڑے ہو جائیں، چاہے کوئی بھی قیمت کیوں نہ ہو۔ آج میں اس عظیم شہید کے بارے میں لکھ رہا ہوں جس نے آزادی کی قیمت اپنے خون سے ادا کی۔

دبلا پتلا جسم، گھنے بال، گہری، بڑی اور چمکدار آنکھیں، آنکھوں میں آزادی کے لیے بس ایک تجسس اور ہر وقت آزادی کی منزل تک پہنچنے کی جستجو۔ جسمانی طور پر کمزور لیکن ذہنی اور عملی طور پر بہت مضبوط ایک وطن زادہ کامریڈ نصیر بلوچ، جب بھی میں نے اسے دیکھا مجھے ایسا لگا جیسے اس نے کوئی قیمتی چیز کھو دی ہے۔ اور وہ اسے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کی خواہشات قلیل اور عارضی نہیں تھیں، لیکن وہ پُر آسائش زندگی کی خواہش نہیں رکھتا تھا، بلکہ وہ ایک ایسی منزل کا مسافر تھا اس کی آخری منزل وطن پر مر مٹنا تھا اور جو اس نے کھویا تھا وہ وطن کی آزادی تھی اور اس نے آزادی کو نسلوں کی مقصد بنانے کے لئے اپنی جان نچھاور کردی۔ میں جب بھی اسے دیکھتا تھا تو اس کے چہرے پر ایک عجیب سا تاثر ہوتا، سنجیدگی اور فکری افسردگی کے آثار ان کے چہرے پر نمایاں ہوتے اور ان کے ہاتھ میں ہمیشہ ایک اخبار ہوتا۔ اس کے ساتھی اسے کامریڈ کہہ کر مخاطب کرتے تھے اور ہم اسے نصیر بلوچ کے نام سے جانتے تھے۔ نواب اکبر خان بگٹی کو جب 26 اگست 2006 کو تراتانی میں شہید کیا گیا تو اس بوڑھے بلوچ نواب کے خون نے نوجوان نسل کا لہو گرمایا اور نوجوانوں میں نفرت اور انتقام کی آگ بھڑکائی۔ وہ نواب کی خون کا بدلہ لینا چاہتے تھے وہ ایک فرد سے بدلہ لینا نہیں چاہتے تھے بلکہ انہوں نے قابض ریاست سے آزادی کی صورت میں بدلہ لینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ نواب بگٹی کی شہادت کے بعد جب ان کے پوتے براہمداغ بگٹی نے بلوچ نوجوانوں اور بلوچ قوم کی بکھری ہوئی قوتوں کو تنظیمی ڈھانچہ دینے کا فیصلہ کیا اور بی آر پی بنانے کا اعلان کیا تو نوجوانوں کی ایک بڑی کھیپ بی آر پی میں شامل ہوگئی، کامریڈ نصیر بلوچ بھی ان نوجوانوں میں شامل تھے جو شہید نواب بگٹی کے نظریے کو پایہ تکمیل تک لے جانے کا عزم رکھتے تھے۔ خضدار میں ان آزادی پسندوں کی چار یاری تھیں اور اس چار یاری میں شامل تین پروانے شمع پر قربان ہو گئے۔ شہید رسول بخش مینگل، غلام اللہ فیروزی، کامریڈ نصیر نے اپنی جانیں قربان کیں اور ان کا ایک ساتھی آج بھی ایفائے عہد پر قائم ہے اور شہیدوں کی راستے پر گامزن ہے۔

ان میں سے بعض نے عہد توڑ دیا، وہ اپنے ساتھیوں کی شہادت کے بعد اپنے عہد کو نبھا نہ سکے۔ اگر وہ خاموش رہتے اور سیاست سے دور رہتے تو مضحکہ خیز بات نہ ہوتی بلکہ وہ دشمن کی صف میں شامل ہو گئے۔ کبھی باپ پارٹی جیسے دشمن کی لشکر میں پناہ گزین ہوئے تو کبھی پیپلز پارٹی میں پناہ لی۔

کامریڈ نصیر کو 2012 میں اس وقت اٹھایا گیا جب خضدار میں قابضین نے سیاسی کارکنوں کو ڈیتھ اسکواڈز کے ذریعے قتل کرنا شروع کر دیا تاکہ قابض اپنی لڑکھڑاتی وجود اور تسلط کو کو برقرار رکھ سکے۔ کامریڈ کو کئی ماہ تک لاپتہ رکھا گیا اور ٹارچر سیلوں میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کی آنکھوں میں آزادی کا خواب کرائے کے قاتلوں کو بے چین کرتا رہا اور وہ اس کے ارادوں کو بھانپ چکے تھے وہ اس کی آنکھوں میں جھانک نہ سکتے۔ لہٰذا وحشی درندوں نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور 19 مئی 2013 کو خضدار میں اس کی سر بریدہ لاش پھینک دی، اس سے قبل 3 ستمبر 2012 کو اس کے بھائی اشرف بلوچ کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا۔

کامریڈ نصیر بلوچ اور ان کے ساتھیوں کی کہانی میں ہمیں جرات اور قربانی کی بازگشت ملتی ہے جو تا ابد گونجتی رہی گی۔ ان کی کہانی جبر کے خلاف مزاحمت اور آزادی کے مقصد کے لیے اٹل لگن کی داستان ہے۔ وہ آزادی کی جدوجہد کے لئے کمر بستہ ہوگئے۔ اس کے باوجود، ان کا سفر خطرات سے بھرا ہوا تھا، کیونکہ انہیں اپنی آزادی کے خوابوں کو کچلنے کے لیے قابض نو آبادیاتی قوتوں کی طرف سے سخت جبر اور مخالفت کا سامنا تھا۔

مصیبت کا سامنا کرتے ہوئے نصیر اور اس کے ساتھی تمام خطرات سے بے نیاز ہوکر ثابت قدم رہے۔ وہ ان خطرات کو جانتے تھے جن کا انہیں سامنا تھا، پھر بھی انہوں نے اپنے عزم میں ڈگمگانے سے انکار کر دیا، اس یقین سے کہ ان کی قربانیاں ان کے لوگوں کے روشن مستقبل کی راہ ہموار کریں گی۔

جب تک ایک بہتر مستقبل کا خواب دیکھنے کی ہمت رکھنے والے موجود ہیں، آزادی کا شعلہ جلتا رہے گا، آنے والی نسلوں کے لیے راستہ روشن کرتا رہے گا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔