نرگسیت – زباد بلوچ

377

نرگسیت

تحریر: زباد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

علمِ نفسیات کی دنیا میں نرگیست جسکا بنیادی مطلب خود پسندی کا ہے جو کہ قدیم یونان کی ایک دیو مالائی کی کہانی سے اخذ کی گی ہے جسکا مرکزی کردار نارسس تھے تو اسی کردار کی واجہ سے خود پسندی کو نرگسیت کا نام دیا گیا۔

نفسیات کے ماہرین کا تصور ہے کہ نرگسیت کی بیماری ہم سب میں موجود ہوتی ہیں ایک ایسی ذہنی و نفسیاتی بیماری جو کہ ہر شعور یافتہ انسان کو علم ہو کر بے علم ہے ،جس سے خاندان ،قوم،تحریک،تنظیم اور ادارے بھی آخرکار زوال کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ اس بیماری کا پہچانا اتنا آسان نہیں ہوتا کیونکہ لوگوں کیلے سیدھا سادہ رویہ ہوتا ہے۔

نرگسیت کے حوالے سے مبارک حیدر اپنی کتاب تہذیبی نرگسیت میں لکھتے ہیں کہ اس مرض کی صحت مند حالتیں ہم سب میں موجود ہوتی ہیں کیونکہ ان کا تعلق ہماری انا سے ہوتا ہے ،نرگسیت سے مراد بالعموم ایسی نرگسیت ہوتی ہے جسکا علاج کیا جانا چاہے کیونکہ یہ شخصیت کا وہ مرض ہے جو تنظیمی اور سماجی معاملات میں سنگین مسائل کا سبب بنتا ہے اس مرض کا شکار ہونے والے لوگ ارد گرد کی دنیا میں اذیت اور تباہی کا باعث بنتے ہیں اور اس کا سب سے بڑھ کر خطرناک پہلو یہ ہوتا ہے کہ مریض کبھی خود کو مریض نہیں مانتا۔نہایت چابکدستی سے اپنا دفاع پیش کرتا ہے اور اس کی کوشش ہوتی ہے کہ جو اس کا علاج کرنا چاہتے ہیں انہیں حاسد،گستاخ یا بدنیت ثابت کر دے ۔

اسی حوالے سے ڈاکٹر ڈیوڈ تھامس کا کہنا ہے نرگسیت کے مریض کو پہچانا اس لیے مشکل ہوتا ہے کہ یہ ہر لمحہ اداکاری کے ذریعے اپنی انا کی حفاظت کرتا ہے اور دنیا کے سامنے ایک جعلی تشخص بناے رکھتا ہے ۔چنانچہ نرگسیت کے مریض دھوکہ دہی کے استاد بن جاتے ہیں ۔لیکن ان لوگوں کو پہچاننا اس لیے ازحد ضروری ہے کیونکہ یہ اپنے منفی رویوں سے تنظیم کی کارکردگی خراب کرتے ہیں ۔

نرگسیت کے مریض کا سوچ ہی ہوتا ہے کہ ہر اچھے کام اور کارنامے میں میرا نام اور حصہ ضرور ہونا چاہیے ،ان میں ذرہ بر بھی برداشت نہیں ہوتا جلد آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور دوسروں کی باتوں کو اپنی مخالف اور بےعزتی سمجھتے ہیں ،نرگسیت کے مریض دکھاوۓ کے عادی ہو کر اداکاری اور فنکاری کے ذریعہ اپنی اصلیت چھپاتے ہیں

مبارک حیدر اپنی کتاب میں نرگسیت کے مریض کی نشانیاں کچھ یوں لکھتے ہیں ۔
۱۔نرگسی شخص کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اجتماعی ضرورتوں کو پر اولیت دے سکے۔وہ دوسروں کیلے ہمدردی سے خالی ہوتا ہے مثلاً جب وہ آپکی خیریت پوچھتا ہے تو یہ ایک عادت اور حسنِ اخلاق کا مظاہرہ ہوتا ہے اسے حقیقت میں آپ کی خیریت سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ۔
۲۔جب نرگسی شخص کی انا کو خطرہ پیدا ہو جاۓ تو وہ صحت مند آدمی سے کہیں زیادہ جذباتی ردعمل ظاہر کرتا ہے حتیٰ کہ نرگسی طیش کا مظاہرہ کرتا ہے ۔جب کسی تقابلی جائزہ کے نتیجے میں وہ دوسروں سے کم تر نظر آۓ تو وہ عام آدمی سے کہیں زیادہ غم و غصہ اور جارحیت دکھاتا ہے ۔در اصل اس کے مزاج کے اُتار چڑھاؤ کا تعلق عام طور پر اسی بات سے ہوتا ہے کہ سماجی تقابل میں اسے اپنے بارے میں کیا خبر آئی ہے یعنی تعریف ہوتی تو اتراتا ہے اور اگر کمتر قرار دیا گیا ہے تو آپے سے باہر ہوتا یا پھر احساس مظلومیت کا شکار ہو جاتا ہے۔

۳۔عام آدمی ناکامی کی صورت میں خود کو قصور وار سمجھتا ہے ،لیکن نرگسی شخص اپنی ناکامی کو اپنی ذات سے باہر نکال دیتا ہے یعنی دوسروں پر ڈال دیتا ہے کیونکہ ایسے شخص میں اپنی ناکامی کو شرمناک بنا کر اپنی نفسیات میں مستقل گوندھ لینے کا رجحان ہوتا ہے۔لہذا اس شرمناک بات کو یعنی اپنی ناکامی کو ہر صورت میں اپنے اوپر سے ہٹا کر کسی اور پر ڈالنا ضروری سمجھتا ہے ۔البتہ کبھی کبھی جب نرگسی شخص کی نظر میں اپنا مقام بہت ہی بلند ہو اور اسے اپنا مقام پست ہونے کا خطرہ نہ ہو تو ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ ناکامی کی ذمہ داری قبول کرلے۔تاہم اس میں بھی اپنی عالی ظرفی کی دھاک بٹھانے کا جذبہ موجود ہوتا ہے اور وہ اپنی کوتاہی کی ذمہ داری قبول کرنے سے پہلے اس بات کی تسلی کر لیتا ہے کہ اس کا ثمر اسے تعریف و توصیف کی صورت میں ملے گا۔
۴۔تکبر ،خود نمائی ،فخر اور فنکارانہ مطلب براری نرگسی شخص کی صفات ہیں جن کا مظاہرہ وہ کبھی کھلے بندوں اور کبھی نفاست سے کرتا ہے۔وہ تعریف و تحسین کا بھوکا ہوتا ہے ۔نرگسی طیش ،دوسروں کی کردار کشی اور اپنی نمائش ، نرگسی شخصیت کے طرز عمل کے ظاہری حصے ہیں ۔مثلاً اپنے ہم پلہ یا فائق لوگوں کے بارے میں یہ کہنا کہ کہ وہ مجھ سے جلتے ہیں ،یا یہ کہ میرے خلاف سازش کرتے ہیں ۔ایسے الزامات وہ کبھی کھلے بندوں اور اشارتا لگاتا ہے۔

نرگسی شخص سواۓ اپنے آپ کے دوسروں کے کردار ،صلاحیت ،ہنر ذہانت اور کارناموں کو کبھی بھی دل و جان سے قبول نہیں کرتا ہے۔نرگسی شخص کی گفتگو میں نمائش کے عنصر صاف نظر آرہا ہو لیکن اس کی کوشش ہوتی کے اپنی اہمیت کا تاثر اس انداز میں چھوڑے کہ جیسے اس کا مقصد نمائش یا بڑا مارنا نہیں تھا بڑے شخصیت کے ملاپ کو اس انداز میں بیان کرتا ہے جیسے ایک معمول کی بات تھی ۔مثلاً فلاں کے ساتھ یہ کیا ،ہاں وہاں ہم ساتھ تھے وغیرہ وغیرہ۔تعریف کے بہت ہی بھوکے ہوتے ہیں خوشامدی پہ خوش ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں کو پسند کرتے ہیں ۔نرگسیت کے مریض کے ساتھ جتنا ہمدردی اور نیکی کرو وہ اسے دکھاوا ،سازش تصور کرتے ہیں ۔نرگسیت کے مریض ہمیشہ دوسروں کو حقیر سمجھتے ہیں اور طنزیہ انداز میں دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔

نرگسی شخص لالچ ،خوف ،غرض ،دکھاوا اور سستی شہرت کے بھوکے ہوتے ہیں ۔

سائیکالوجسٹ ڈاکٹر ڈیوڈ تھامس نرگسی شخص کے علامات کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔
۱۔ان کے ہر کام میں دوسروں کے جذبات سے لاتعلقی ہوتی ہے،مثلاً رسمی اخلاقیات اور اپنی نیکوکاری کے اظہار کے لیے مزاج پُرسی وغیرہ ۔جس میں حقیقی دلچسپی موجود نہیں ہوتی۔
۲۔ان کے تقریباً تمام خیالات طرزِ عمل دوسروں سے مستعار ہوتے ہیں ،یعنی یہ لوگ ایسے لوگوں کے خیالات و اطوار کی نقالی کرتے ہیں جنھیں یہ سند مانتے ہیں ۔اسے عکس کی پیروی (Mirroring )کہا جاتا ہے ،یعنی یہ ان بڑے لوگوں کی پیروی کے ذریعے دراصل خود کو عظیم محسوس کرتے ہیں ۔

۳۔دوسرے کے مسائل و جذبات سے لاتعلقی کے نتیجہ میں انہیں دوسروں کی بات کاٹنے اور اپنی سنانے کی جلدی ہوتی ہے ۔یہ کبھی دوسرے کی بات سمجھنے کے لیے نہیں سنتے بلکہ اس لیے سنتے کہ اس کے جواب میں انہوں نے کیا کہنا ہے ۔لہذا ان کا سیکھنے کا عمل محدود اور ان کا علم انا سے رنگا ہوا ہوتا ہے۔
۴۔یہ چھوٹے کام کرنے کو تیار نہیں ہوتے بلکہ دوسروں پر ڈالتے ہیں کیونکہ انکی نظر میں چھوٹے چھوٹے کاموں میں وقت ضائع کرنا ان کی اہم شخصیت کے شایانِ شان نہیں ہوتا۔
۵۔ان کے خیال میں کام کے قواعد کی پابندی کرنا ان پر لازم نہیں ہوتا۔
۶۔اگر انہیں یقین ہو کہ پکڑے نہیں جائیں گے تو دھوکہ دہی سے نہیں چوکتے۔
۷۔جب کام میں ان سے شراکت کریں تو آپ یقین رکھیں کہ کام کا بڑا حصہ آپ کو ہی کرنا ہوگا۔
۸۔یہ جب کوئی کام دوسرے کے سپرد کرتے ہیں تو پھر اس کی چھوٹی چھوٹی تفصیل میں دخل اندازی بھی جاری رکھتے ہیں ۔پھر اگر کام خوبی سے مکمل ہوجاۓتو اس کا سہرا اپنے سر باندھ لیتے ہیں لیکن اگر بگڑ جاۓتو الزام اس پر ڈال دیتے ہیں جیسے کام سپرد کیا گیا تھا۔
۹۔جب موضوع گفتگو یہ خود ہوں تو یہ دیر تک سنتے ہیں اور کبھی روکتے نہیں ،تھکتے نہیں ۔لیکن اگر گفتگو کا موضوع کوئی دوسرا ہو یا ایسا مسلۂ زیرِ بحث ہو جس میں ان کی ذات کا ذکر نہیں آتا تو یہ دورانِ گفتگو بے قرار یا لاتعلق ہو جاتے ہیں۔
۱۰۔نرگسی شخص کے ساتھ کام کرنے والوں پر ذہنی اور نفسیاتی دباؤ بڑھ جاتا ہے۔لہذا جن تنظیموں میں یہ لوگ بالادست حثییت میں ہوں وہاں ملازموں اور ہلکاروں میں غیر حاضری کا رجحان بڑھ جاتا ہے ۔جہاں یہ ماتحت اہلکار کی حثییت سے ہوں ،وہاں ساتھیوں سے ٹکراؤ کی حالت میں رہتے ہیں یا احساس مظلومیت کا شکار ہو جاتے ہیں ۔

ان علامات کی روشنی ہم یہ اخذ کرتے ہیں کہ اگر انسان میں کچھ کرنے ، آگے بڑھنے کی ہمت اور اپنے اوپر بھروسہ ،یقین نہ ہو ،احساس کمتری کا شکارہوکر اور رویوں میں مبتلا ہو گا جو نرگسیت کا نشاندہی ہے۔
اگر فوری طور پر ان کی تشخیص اور علاج نہیں ہوا تو انسان کے کردار کے ساتھ ساتھ تحریک،تنظیم اور قوم میں بربادی اور زوال کی جانب راغب ہوگا۔آس پاس کے لوگوں میں مایوسی اور بے چینی کی کیفیت کا شکار ہوگا۔
اس حوالے سے باقاعدہ اپنے لوگوں اور نوجوانوں کی تربیت انتہائی ضروری ہے تاکہ صحت مند ماحول ،سماج اور معاشرے کی موجودگی میں قومی تحریک آگے رواں دواں ہو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔