بلوچ قومی تحریک کا ارتقاء: آپریشن درہ بولان اور اس کے اثرات – بیورگ خان بلوچ

836

بلوچ قومی تحریک کا ارتقاء: آپریشن درہ بولان اور اس کے اثرات

تحریر: بیورگ خان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کہا جاتا ہے سونا آگ میں تپ کر ہی کندن بن جاتا ہے اور اگر زیادہ جلایا جائے تو جل کر خاکستر بھی ہوسکتا ہے۔ اگر کسی قوم میں اندرونی طور پر نااتفاقی کا زنگ لگ جاتا ہے تو اس قوم پر غیر اقوام عذاب کی صورت نازل ہوجاتے ہیں جو اس قوم کو غلامی کے آگ میں جلائے رکھتی ہے۔ ایسے میں کچھ روشن دماغ افراد سوناگر کی طرح قوم کے زنگ زدہ معاشرے کو اس غلامی کی آگ میں جل کر خاکستر ہو جانے سے بچانے کے لیئے اور کندن بناکر بروقت اس آگ (غلامی) سے نکالنے کے لیئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

بلوچ سماج میں جب آپسی نااتفاقی، دوریوں اور فرسودہ قبائلی ذہنیت کی وجہ سے شاطر انگریز اور منافق کالے انگریز قابض ہوجاتے ہیں تو وہ مختلف حیلے بہانوں اور پالیسوں سے بلوچ قوم کو غلامی کے آگ میں جلا کر بھسم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسری طرف یوسف عزیز مگسی، عبدالعزیز کرد، خیر بخش مری جیسے رہنماء قوم کو کندن بنانے کی جدوجہد کرتے ہیں اور اس جدوجہد میں اجتماعی طور آزادی کی تحریک اور قومی صلاحیتوں میں کندن بننے کے لیئے ارتقا کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔

پاکستان اور بلوچستان کے نوجوان نسل کے سیاسی شعور کو پرکھا جائے تو میں برملا یہ کہہ سکتا ہوں کہ بلوچستان سیاسی شعور میں پاکستان کے دیگر اقوام میں سے کئی آگے نکل چکے ہیں۔ جو بات بلوچ قوم کے نوجوان اور قائد دہائیوں پہلے کہہ چکے ہوتے ہیں یا سمجھ چکے ہوتے ہیں۔ وہ کئی عرصے بعد جاکر پاکستان کے دیگر اقوام کے افراد کو سمجھ آجاتی ہے۔ ایسا اس لیئے ہے کہ بلوچ قوم نے غلامی کے آگ کو بروقت پہچان کر اس میں اپنے زنگوں کو جلا کر کندن بننے کے عمل سے گزر رہے ہیں اور ایک قومی سانچے کے ارتقائی عمل کی جانب گامزن ہیں۔

جب قابض پاکستان بلوچ سرزمین پر انگریز کے آشیرباد سے مسلط ہوا تو سیاسی جدوجہد کیساتھ مسلح جدوجہد کا بھی آغاز ہوا جو نیم پختہ تنظیم سازی سےشروع ہوکر قبائلی تنظیم سازی سے ہوتے ہوئے گوریلا تنظیمی ڈھانچے سے گزر کر آج ریگولر فوج جیسے ادارتی شکل میں ڈھلتا جا رہا ہے۔ جس کا اظہار بی ایل اے نے آپریشن ‘درہ بولان’ میں کیا ہے۔ موجودہ تحریک جو لگ بھگ دو دہائیوں پر محیط ہے۔ تیزی سے عسکری میدان میں پروان چھڑتی نظر آرہی ہے۔ جس کے پیچھے نوجوانوں کی سرخ خون قربانیوں کی صورت میں نظر آتی ہے۔ ایک وہ شروعاتی دور تھا جب بلوچ سرمچار نیم تربیت یافتہ تھے اور دور سے دشمن پر فائر کرکے گوریلا اصولوں کے تحت فرار ہوتے تھے اور چند ہی سالوں میں ترقی یافتہ شکل یہ ہے کہ دشمن کے مضبوط قلعوں میں پلک جھپکتے داخل ہوکر دشمن کے سینے پر فتح کا جھنڈا گھاڑتے ہوئے اپنے جدید تربیت اور صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے دشمن کے مورال کو خاک میں ملا رہے ہیں۔

آپریشن درہ بولان ہے کیا؟

آپریشن درہ بولان بلوچ قومی تحریک کے دور اندیش عسکری رہنماء جنرل اسلم بلوچ کے اس دور اندیش پالیسی اور خواب کی طرف عملی قدم ہے جس میں انہوں نے آزادی کی جنگ میں جدید طرز پر شدت اور جدت لانے کے لیئے دیکھا تھا۔ جن پر وہ بذات خود عمل پیرا رہے اور ان میں سے “براس” اور “مجید برگیڈ” کو پورا کیا اور انکی شھادت کے بعد اس کے رفقا، جانشین اور شاگرد قومی قربانی سے سرشار جانبازوں کیساتھ آگے بڑھا رہے ہیں۔

آپریشن درہ بولان میں بی ایل اے نے براس کے تعاون سے جدید صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ جس کے دو اہم مقاصد بیان کیئے گئے ہیں۔ ایک تو بلوچ قوم سامنے دشمن ریاست کے کھوکھلی بھرم اور طاقت کا پول کھول کر یہ باور کرایا گیا ہے کہ بی ایل اے بمع براس اب یہ اہلیت رکھتا ہے کہ وہ کہیں بھی دشمن سے اپنے علاقوں کو چھڑا کر اپنے کنٹرول میں رکھ کر دشمن کو مفلوج کرسکتا ہے اور ساتھ ہی دنیا کے ان قوتوں کو بھی یہ باور کرایا ہے کہ بلوچ قومی تحریک روایتی قبائلی جنگ سے بہت آگے نکل کر قومی قوت اور متبادل طاقت کی شکل میں آگے کی طرف بڑھ چکی ہے اور دنیا کہ وہ قوتیں بلا تردد بلوچ قوم اور انکے محافظوں کے صلاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے مشترکہ مفادات کے تحفظ کے لیئے مشترکہ طور پر اعتماد سے کام کرسکتے ہیں۔

براس
بلوچ مسلح تنظیموں کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے اور جنگ میں شدت لانے کے لیئے بنائی جانے والی براس اتحاد ایک سالہ خاموشی کے بعد آپریشن درہ بولان اور نام نہاد انتخابات پر ڈیڑھ سو سے زائد حملوں کے ذریعے واپسی کرچکی ہے اور اس اتحاد میں شامل دو بڑی تنطیموں کے سربراہان کے بیانات اور اشاروں سے یہ بات سامنے آرہی ہے کہ براس، اتحاد سے ایک قدم آگے قومی فوج کی شکل میں ڈھلنے والی ہے اور اگر یہ بات عملی طور وقوع پزیر ہوجاتی ہے تو آنے والے وقتوں میں بلوچستان میں جنگ چھاپہ مار کاروائیوں سے نکل کر ایک شدید اور جدید جنگ کی طرف گامزن ہوگی۔

سامراج کی پالیسی
آپریشن گنجل، آپریشن درہ بولان، براس اور دیگر تنطیموں کی جانب سے نام نہاد انتخابات میں پے در پے حملوں میں قابض فوج کی ناکامی اور شکست کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور ریاست اپنی شکست کا بدلہ جبری گمشدہ افراد اور نہتے نوجوانوں سے لے رہی ہے جیسے آپریشن گنجل کے دوران پاکستانی فوج نے تقریباً نو افراد کو شہید کرکے انہیں سرمچار ظاہر کرنے کی کوشش کی اور آپریشن درہ بولان کے دوران چھ لاپتہ افراد کو شہید کرکے سرمچار ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی جس میں سے ایک لاپتہ شخص کی چہرے سے جلد ہی اتاری گئی تھی۔ جو کہ دشمن کی اعصابی شکست کا واضح اعلان ہے۔

بلوچ قومی تحریک عسکری محاز پر کامیابی کی جانب گامزن ہے اور دشمن اپنی شکست کا بدلہ جنگی جرائم کرکے لے رہی ہے۔ دوسری طرف بلوچ قومی تحریک میں سیاسی جدوجہد کا میدان جمود کا شکار نظر آرہا ہے جس پر بلوچ قومی تحریک سے جڑے قائدین توجہ دیکر اس محاز کو بھی کامیابی سے ہمکنار کرنے کی کوشش کریں تاکہ سیاسی اور سفارتی کوششوں سے بلوچ قومی تحریک کو دنیا بھر میں عسکری محاز کی طرح اجاگر کریں۔ یاد رہے محض عسکری قوت بن کر دشمن کو ناقابل تلافی نقصان تو پہنچایا جاسکتا ہے لیکن اس سے دشمن کو بلوچستان سے انخلاء پر مجبور کرنے کے لیئے سیاسی اور سفارتی محاز پر بھی اسی تندہی سے کام کرنا ہوگا۔ قومی فوج تشکیل دینے کیساتھ ساتھ قومی سیاسی فرنٹ، سفارتی عملہ، منظم انٹیلی جنس ادارہ، مالیاتی ادارہ سمیت ہر اس جہت میں بھی عملاً کام کرنا ہوگا جو دشمن نے انخلاء کو یقینی بنانے کے لیئے اور نعم البدل کے طور پر دنیا کے سامنے لانے کے لیئے ناگزیر ہو۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔