پاکستانی عام انتخابات سخت سیکورٹی کے دعوؤں کے باوجود بلوچستان کے مختلف علاقوں میں پولنگ کا عمل شروع نا ہوسکا، نیٹورک بندش ، سیکورٹی حصار اور دھماکوں کی گونج کے باعث لوگ گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے-
جمعرات کی صبح چند علاقوں میں پاکستانی فورسز کی موجودگی میں پولنگ اسٹیشن کھلتے ہی نامعلوم افراد نے بم حملہ کرکے پولنگ کا عمل پھر سے روک دیا۔
ضلع کیچ کے علاقے گومازی میں گورنمنٹ ہائی سکول گومازی کے پولنگ اسٹیشن پر تین مختلف اوقات میں صبح سے تین بم حملوں کے واقعات پیش آئے جس کے بعد پولنگ کا عمل شروع نہیں ہوسکا-
کیچ کے مختلف علاقوں میں انتخابی مہم گذشتہ کئی روز سے بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کے حملوں کی زد میں رہا ہے جس کے باعث کیچ میں قائم 49 پولنگ اسٹیشنز کو حساس قرار دیا گیا ہے-
کیچ میں حملوں کے علاوہ تشدد کے بھی مختلف واقعات پیش آئے جبکہ کیچ کے تحصیل مند میں خواتین نے احتجاجاً پولنگ اسٹیشن بند کردیئے اور بیلٹ پیپرز جلا دیئے-
دوسری جانب کوئٹہ جیسے سخت سیکورٹی والے شہری میں بھی عوام کی جانب سے ووٹنگ کا عمل عدم دلچسپی دیکھنے میں آیا۔ انتخابی ایجنٹ اور امیدوار ووٹروں کی راہ دیکھتے رہیں، متعدد علاقوں میں ووٹنگ ٹرن آؤٹ 2 فیصد رہا-
بلوچستان کے زامران میں تین پولنگ اسٹیشن سے ملنے والی نتائج کے مطابق تین ہزار رجسٹرڑ ووٹروں میں سے صرف 52 ووٹ کاسٹ ہوئے جبکہ زامران کے مختلف علاقوں میں مشتعل شہریوں نے پولنگ اسٹیشنز بند کرکے پولنگ ایجنٹس کو نکال دیا-
ادھر بلوچستان کے ضلع خضدار میں بھی شہری گھروں میں محصور ہوگئے ہیں بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ و امیدوار سردار اختر مینگل نے سوشل میڈیا کے ویب سائٹ “ایکس” پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ انتخابی عمل مایوس کن ہیں، کاکہیر میں 1400 ووٹرز ہونے کے باجود صرف 40 افراد نے ووٹ جمع کرائے جبکہ پیشی میں 1400 رجسٹرز ووٹرز میں سے صرف 60 افراد نے ووٹنگ کی ہے-
انتخابات کے دن پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح بلوچستان میں بھی موبائل اور انٹرینٹ سروس بند کردیا گیا جس کے باعث رابطوں کے ذرایع منقطع ہوکر رہ گئے ہیں-
نیشنل پارٹی کے سربراہ اور خضدار و کوئٹہ سے انتخابی امیدوار اختر مینگل کے مطابق نیٹورک کی بندش کے باعث اندرونی اور دور دراز علاقوں میں ووٹنگ حوالے اطلاعات ملنے میں مشکلات پیش آرہے ہیں الیکشن کمیشن نیٹورک بحالی پر فوری غور کرے-
فائرنگ، تشدد و بم حملوں کے بیچ پولیس اہلکاروں سمیت متعدد شہریوں کی ہلاکت و زخمی ہونے کے بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں-
تربت سے مقامی صحافی کے مطابق تربت سمیت مختلف علاقوں میں چند مخصوص مکامات پر شدید سیکورٹی میں انتخابی عمل کی شروعات تو کی گئی البتہ تربت جو گذشتہ کئی روز سے حملوں کے زد میں ہے اور خوف کے باعث عملہ اور پریزائڈنگ آفسر ڈیوٹی پر نہیں پہنچ نہیں سکے اور نا ہی ووٹنگ کا عمل شروع ہوسکا ہے-
صحافی کے مطابق عوامی کی عدم دلچسپی اور اور خوف کے باعث عدم شمولیت سے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار شدید پریشانی میں مبتلا رہیں جبکہ چند علاقوں میں لوگوں کو ٹرانسپورٹ و دیگر سہولیات مہیا کرکے پولنگ اسٹیشنز لے جایا گیا جبکہ گوادر میں بھی لوگوں کو گھروں سے گاڑیوں کے ذریعے پولنگ اسٹیشنز پہنچایا گیا-
واضح رہے کہ بلوچستان میں بلوچ آزادی پسند مسلح تنظیموں کی جانب سے انتخابی عمل کے بائیکاٹ کے اعلان کے بعد بلوچستان میں ہونے والے انتخابات میں عوامی دلچسپی کا فقدان رہا جبکہ ان تنظیموں کی جانب سے گذشتہ دنوں میں 125 سے زائد حملوں میں انتخابی تیاریوں، امیدواروں اور پاکستانی فورسز کو نشانہ بنایا گیا ہے-
ان حملوں کے چلتے الیکشن کمیشن پاکستان کی جانب سے بلوچستان اور خیرپختونخواہ کو حساس قرار دیکر موبائل نیٹورک بند کرنے اور فوج تعینات کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے-
بلوچستان میں ابتک مجموعی صورتحال گھمبیر ہے مقامی صحافی اور تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کے دیگر پاکستان کے برعکس بلوچستان میں انتخابی ٹرن آؤٹ مایوس کن ثابت ہوا اور اس بار ٹرن آؤٹ شاید 2013 سے بھی کم ہو۔
بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں شام پانچ بجے انتخابی عمل روک دیا گیا ہے البتہ جمعرات کا دن بلوچستان میں ایک بار پھر بم دھماکوں، حملوں اور افراتفری کے کے ساتھ اختتام پزیر ہوا-