آپریشن درہ بولان اور مستقبل کا جنگی منظر نامہ
تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
جنگ تباہی ہے جو کسی بھی قوم کی تباہی پر منتج ہوتا ہے لیکن ایک مظلوم قوم کی تباہی اس وقت شروع ہوتی ہے جب اسکی زمین کو ظلم و جبر کے بوٹوں تلے روند دیا جاتا ہے اور بد قسمتی سے وہ قوم جنگ کے خوف سے دبک کر قبضہ گیر کی ماتحتی قبول کر لیتا ہے۔قابض کی ماتحتی قبول کرنا موت سے بھی بدتر عمل ہے۔موت اٹل ہے تو بہتر عمل یہ ہے کہ جنگ کا راستہ اختیار کرکے بہادری و دلیری کی تاریخ رقم کرکے نہ صرف خود کو بلکہ اپنی قوم کو بھی دنیا میں امر کرکے دیگر مظلوموں کے لئے تقلید کا سبب بنیں تاکہ وہ بھی مزاحمت کے راہ کا مسافر بن جائیں۔
تاریخ بلوچستان مزاحمت کی تاریخ ہے۔ 1839 کو برطانیہ کے خلاف محراب خان کی مزاحمت و شہادت نے بلوچ کی مزاحمت کو ایک نیا رخ عطا کیا اور اسی تسلسل کو بلوچ خان نوشیروانی نے گوگ پروش کے مقام پر جبکہ دوست محمد بارنزائی نے مغربی بلوچستان میں زندہ رکھ کر بلوچ کی مزاحمت کو زندہ جاوداں کردیا۔ بلوچ قوم کی بدقسمتی یہ ہے کہ جب پاکستان نے بلوچ زمین کو تاراج کیا تو احمد یار خان، میر محراب خان کی وراثت کو سنبھالنے میں ناکام رہا اور خود کو ایک قومی رہنماء ثابت کرنے کے بجائے ایک مذہبی رہنماء کے طور پر پیش کرکے بلوچ قومی تاریخ مزاحمت کو مسخ کرکے بلوچ قوم کو ایک عظیم قومی نقصان سے دو چار کر گیا۔ اگر احمد یار خان پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف اُس وقت جدوجہد کا فیصلہ کرتا تو آج بلوچ قوم جبری گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کے بجائے آزادی کی زندگی گزار رہی ہوتی۔
اکیسویں صدی نے جیسے دنیا کو ترقی سے روشناس کرایا اسی طرح اس صدی میں بلوچ قومی تحریک کی باگ دوڑ نوجوان قیادت نے سنبھال کر بلوچ جنگ کو جدید خطوط پر استوار کیا اور جدید دور کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر ادارہ جاتی و محکمہ جاتی بنیاد فراہم کیا۔جس تحریک کی بنیاد نواب خیر بخش نے رکھی اس کو استاد واحد قمبر اور ساتھیوں نے تحریک کو ادارہ جاتی شکل میں منظم کیا جبکہ شہید استاد اسلم ،ڈاکٹر اللہ نذر، بشیر زیب، اور نوجوانوں نے اس جنگ میں جدت کو متعارف کرکے اس کی شدت میں مزید اضافہ کیا ہے۔
بی ایل اے نے تحریک کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر مجید بریگیڈ کو متحرک کیا،شہید درویش بلوچ اور ریحان اسلم کی قربانیوں نے نوجوانوں میں ایک ایسی روح پھونک دی جو آپریشن گنجل، آپریشن درہ بولان، شہید شاری، شہید سمعیہ جیسے فدائین کی شکل میں تحریک کو معاشرے کے تمام پرتوں تک پہنچانے میں کامیاب رہی اور جدت پسندانہ پالیسیوں نے بلوچستان میں مستقبل کے جنگی منظر نامہ کی شدت کو عیاں کردیا ہے۔
آپریشن درہ بولان کا پس منظر۔
انتیس جنوری دو ہزار چوبیس کی رات کے دس بجے بی ایل اے کے ترجمان جئیند بلوچ نے میڈیا کو جاری کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن درہِ بولان کا آغاز ہوچکا ہے – بی ایل اے کے مجید بریگیڈ، اسپیشل ٹیکٹیکل آپریشنز اسکواڈ، فتح اسکواڈ اورانٹیلیجنس ونگ نے مچھ بولان کے علاقوں میں وسیع پیمانے پر آپریشن کا اعلان کردیا ہے ۔ عوام سے اپیل کی گئی کہ وہ گھروں سے نہ نکلیں اور شاہراوں پر سفر کرنے سے گریز کریں۔ رات نو بجے شروع ہونے والا درہ بولان آپریشن دو رات اور دو دن جاری رہا، جس کے بعد جمعرات کی شام جئیند بلوچ نے آفیشل ٹیلی گرام چینل کے ذریعے اس آپریشن کے اختتام کا اعلان کیا اور اگلے روز تفصیلی بیان میں 78 فوجی اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا جبکہ اس آپریشن میں 385 سرمچاروں کی شمولیت اور 12 مجید بریگیڈ کے ساتھیوں جبکہ ایک شہید کا تعلق فتح اسکواڈ سے بتایا گیا ۔
اگلے روز بی ایل اے نے تفصیلی بیان میں شہدا کے ناموں کی فہرست جاری کردی جن میں چاکر سید عرف فاروق بلوچ نے خود کش جیکٹ کو مین ایف سی گیٹ پر تباہ کرکے باقی ساتھیوں کو راستہ فراہم کیا جبکہ دیگر شہدا میں سلال، قاسم، عطا اللہ، جمال، ودود ساتکزئی، حمل مومن،صدام حسین،نظام، حافظ ذیشان، نادر بنگلزئی اور ذیشان جبکہ فتح اسکواڈ کے رکن کاشف شاہوانی شامل تھے۔
اس منظر نامے میں ہر جگہ بی ایل اے کے سرمچار نظر آئے اور آزادانہ طور پر نقل و حرکت کرتے دکھائی دئیے جبکہ ایلیٹ یونٹ نے تمام راستوں میں مائن نصب کرکے اپنے کنٹرول کو ثابت کیا۔ جبکہ اسی دوران پیر غائب بولان کیمپ پر حملہ کرکے دس فوجیوں کو بھی ہلاک کیا گیا۔
وقفہ وقفے سے بی ایل اے کی جانب سے مچھ شہر و دیگر علاقوں پر کنٹرول کے بیانات جاری کئے گئے اور پاکستانی فوج کو چیلنج بھی کیا گیا کہ وہ آکر دو بدو سرمچاروں کا مقابلہ کریں۔ایف سی ہیڈ کوارٹر میں فدائیوں کا داخلہ، ہیلی کاپٹروں اور جیٹ طیاروں کی پروازیں اور شیلنگ کے باوجود بلوچ سرمچار مکمل کنٹرول میں نظر آئے جبکہ شہر بھر میں مواصلاتی نظام مکمل طور پر مفلوج کیا گیا تھا۔ اپنے اہداف میں کامیابی کے بعد بی ایل اے کے سرمچار اپنے محفوظ ٹھکانوں کی طرف روانہ ہوئے اور یہ جنگ پاکستان کی اعصابی شکست کا باعث بنا۔
پاکستان کی ناکامی اور بلوچ کی طاقت۔
آپریشن درہ بولان بلوچستان کی مسلح جدوجہد میں بلوچ مسلح تنظیموں کی طاقت کا مکمل اظہار اور پاکستان کی شکست و ناکامی کا برملا اعتراف تھا۔ اس حملے میں نہ صرف پاکستان فوج اور تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا بلکہ اس اعصابی جنگ میں پاکستانی فوج کو جسمانی،ذہنی اور نفسیاتی طور پر پے در پے کاری ضرب لگائے گئے ۔
پاکستان کی ناکامی کا اعتراف نو آبادیاتی بلوچستان کے ترجمان جان اچکزئی آپریشن درہ بولان کے ختم ہونے کا وادیلا مچا کر اپنی ناکامی چھپانے کی کوشش کرتے رہے لیکن سرمچار دن دہاڑے شہر کا کنٹرول سنبھال کر پاکستان فوج کو مقابلے کا چیلنج کرتے رہے۔ اپنے ناکامی کو چھپانے کے لئے آئی ایس پی آر نے 24 ہلاکتوں کا اعلان کیا جن میں 13 شہید سرمچار جبکہ باقی ماندہ 11 لوگ جبری لاپتہ افراد تھے جن میں کچھ کی شناخت بھی ہوئی ہے۔
پالیسیوں میں جدت:
آپریشن درہ بولان مسلح تنظیموں کی پالیسیوں میں جدت اور شدت کا اظہار تھا۔ بلوچستان کی پچھتر سالہ طویل مزاحمتی جدوجہد میں پہلی بار اتنا بڑا مہلک حملہ ہوا جس نے پاکستان کو مکمل طور پر بے بس کرکے رکھ دیا تھا۔ سرمچاروں کی بڑی تعداد اس آپریشن کا حصہ تھی جس نے نہ صرف عسکری کیمپوں پر حملہ کیا بلکہ تمام داخلوں اور خارجی راستوں کی ناکہ بندی اور مائن بچھا کر شہر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ بی ایل اے کے مختلف یونٹ پہلی بار مشترکہ طور پر دشمن پر حملہ آور ہوئے اور یہ باور کرایا کہ بلوچستان کی آزادی کے لئے بلوچ قوم ہر طرح کی قربانی کے لئے تیار ہے اور اِن حملوں سے واضح ہے کہ بلوچستان میں مسلح تنظیموں کی پالیسی میں جدت ایک خطرناک جنگی منظر نامہ پیش کررہا ہے جو پاکستان کی تباہی اور بلوچ کی آزادی پر منتج ہوگا۔
عوامی حمایت;
دنیا کی کوئی تحریک عوامی حمایت کے بغیر منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا ہے ۔ دنیا کی تحریکیوں کی کامیابی کا دارومدار عوامی حمایت سے ہی ہے۔ بلوچ قوم کی پچھتر سالہ جدوجہد قومی حمایت کی ہی مرہون منت ہے۔ آپریشن درہ بولان کا اگر مختصر تجزیہ کیا جائے تو سوشل میڈیا سے عیاں ہے کہ بلوچ قوم کی وسیع حمایت سرمچاروں کا حاصل رہی ہے۔
نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ مقبوضہ بلوچستان طول و عرض میں پر بھی عوام کی حمایت سرمچاروں کو حاصل ہے۔ بی ایل اے نے عوام کو سفر سے گریز کرنے اور گوریلا جنگجووں نے مساجد میں اعلانات کئے تو عوام نے اس آواز پر لبیک کہہ کر بھرپور حمایت کا خاموش اعلان کیا جو بلوچ قومی تحریک سے ان کی وابستگی کا اظہار کرتی ہے۔
مچھ میں شہید ہونے والے بلوچ فرزندوں کے والدہ اور بہنوں کی جانب سے خراج عقیدت پیش کرنا اور اپنے بچوں کو قوم کا بیٹا قرار دینا بھی عوامی حمایت کی ایک واضح مثال ہے۔
نوجوانوں کی قائدانہ صلاحیت:
نوجوان کسی بھی قوم کا اہم اثاثہ ہوتے ہیں اسی طرح بلوچ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد قومی تحریک سے منسلک ہو کر قائدانہ صلاحیتوں کو استعمال کررہی ہے۔ گوریلا کیمپوں کی قیادت سے لیکر فدائی، اسپیشل فورسز سے لیکر ٹیکنیکل اسکواڈ نوجوان قیادت کے کاندھوں پر ہے جو ان گراں قدر ذمہ داریوں کو نہ صرف سر انجام دے رہی ہے بلکہ ان صلاحیتوں کو آنے والی نسل میں منتقل کررہی ہیں تاکہ اس طویل جنگ میں کامیابی کا حصول ممکن ہوسکے۔ ڈاکٹر اللہ نذر سے لیکر استاد اسلم اور بشیر زیب نے جس جانفشانی اور لگن سے تحریک نوجوان نسل کو منتقل کی ہے، اسی طرح نوجوان نسل اس جنگ کو آگے بڑھارہی ہے جو بلوچ قومی تحریک کو جدت پسندانہ پالیسیوں کی صورت میں سامنے لا رہے ہیں۔
مستقبل کے اثرات:
حالیہ کچھ عرصوں میں بی ایل اے نے جدید جنگی حکمت عملیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مارو اور بھاگو پالیسی کے بجائے بڑے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنا کر دشمن ریاست کو شدید نقصان سے دوچار کیا ہے۔کراچی،گوادر، نوشکی ،پنجگور اور مچھ جیسے بڑے حملے یہ واضح کرتے ہیں کہ بی ایل اے اپنی عسکری قوت کو منظم کررہی ہے۔ان حملوں سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ مستقبل قریب بلوچستان میں جنگ کی تپش میں اضافہ ہوگا اور بلوچستان کے بڑے شہروں میں اس طرح کے حملے وقوع پذیر ہونگے جو بلوچستان کی دگرگوں حالات کے ابتری کا موجب بنیں گے۔ قومی فوج کے منظم اور کامیاب حملے بلوچستان میں پاکستانی فوج کے مشکلات میں اضافے کا سبب بنیں گے۔جبکہ براس کی درہ بولان آپریشن میں مکمل حمایت اس بات کی جانب توجہ دلاتی ہے کہ بلوچ تنظیمیں اپنی طاقت کو منظم کررہی ہیں جو ایک جنگی منظر کشی کی عکاس ثابت ہوگی۔
حروف آخر۔
آپریشن درہ بولان قربانیوں اور جدید پالیسیوں کا مکمل امتزاج ہے جو عیاں کرتا ہے کہ بی ایل اے اور دیگر بلوچ مسلح تنظیمیں اپنی آزادی کے لئے ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار ہیں۔نہ صرف قربانی بلکہ وقت و حالات کے تقاضے اور خطے کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچ تنظیمیں جدت پسندانہ پالیسیوں پر گامزن ہےجومستقبل میں جنگی حکمت عملیوں کی تبدیلی کا موجب بنیں گے۔اسی جنگی حکمت عملیوں کی وجہ سے نوجوان جوق در جوق اس تحریک کا حصہ بن رہے ہیں جو بلوچ قومی آزادی کی کامیابی کی نوید ثابت ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔