ڈیرہ بگٹی: گھروں پر چھاپے، 10 سے زائد افراد جبری لاپتہ

359

بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کی تحصیل سوئی کے مخلتف علاقوں میں پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں نے چھاپے مار کر دس سے زائد افراد کو حراست میں لیکر لاپتہ کردیا ہے۔

علاقائی ذرائع کے مطابق ایک کاروائی میں پاکستانی فورسز نے ظفر کالونی میں چھاپہ مار کر جی ٹی اے کے ضلعی صدر اور جمہوری وطن پارٹی کے کارکن ماسٹر غوث بخش ولد میران بخش بگٹی کو جبری طور پر لاپتہ کردیا۔

اُدھر سوئی کے تحصیل بازار میں موسیٰ ہوٹل پر بیٹھے رحیم داد ولد حاجی بگٹی اور رحیم داد ولد سوالی بگٹی کو بھی سی ٹی ڈی و خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے جبری طور پر لاپتہ کردیا۔

ذرائع نے بتایا کہ سوئی کے جھکرا موڑ پر واقع گھر پر خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے چھاپہ مار کر عطاللہ ولد گوبر خان بگٹی کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا جبکہ سوئی میں ہی شاہ زین پمپ سے تین افراد کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا گیا جن کی شناخت
فوری طور پر نہیں ہو سکی ہے۔

اطلاعات کے مطابق سوئی فیلڈ کے فینس میں لیبر کوارٹر سے فیصل ولد حنیف بگٹی اور شاہ حسین ولد شاہ گل بگٹی بھی کو سی ٹی ڈی نے حراست میں لیا تاہم شام کو دونوں کو رہا کردیا گیا۔

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات تسلسل کیساتھ جاری ہے۔ ہفتے کی شب تربت و گردنواح سے پاکستانی فورسز نے گھروں پر چھاپوں کے دوران تین نوجوانوں کو جبری لاپتہ کیا۔ واقعے کیخلاف گذشتہ روز سے نوجوانوں کے لواحقین و علاقہ مکین سی پیک روٹ پر دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔

گذشتہ روز کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ایک جلسہ منعقد کیا جس میں بلوچستان بھر سے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ مذکورہ جلسہ بی وائے سی کے احتجاجی تحریک کے پانچویں دور کے تحت کیا گیا۔

خیال رہے دو مہینے قبل تربت میں پاکستانی فورسز سی ٹی ڈی کے زیرحراست نوجوان بالاچ مولابخش کے قتل کے بعد دھرنوں اور مظاہروں کو سلسلہ شروع ہوا تھا جس نے بعد ازاں اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی شکل اختیار کی۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی جبری گمشدگیوں، چھاپوں، جعلی مقابلوں کو بلوچ نسل کشی قرار دے چکی ہے تاہم پاکستانی حکام کی جانب سے مظاہرین کے مطالبات پر عمل درآمد کیلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔