دنیا کے نقشے پر بلوچستان بھی ہے؟
تحریر: ثناءسالار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
کہنے کا شوق تو نہیں ہے لیکن کیا کریں کہنا تو پڑتا ہے ۔۔جب سورج کی کرنیں دھرتی پر پڑتی ہیں تو پوری دنیا میں لوگ اپنے اپنے دفاتر ،سکولز،اسپتالوں ،بینکوں اور دوسرے معمولاتِ زندگی کی جانب روانہ ہوجاتے ہیں اور شام کو حسرت کے ساتھ گھر لوٹتے ہیں ۔جہاں کسی بھی ماں کا جی نہیں گھبراتا کے شام کو میرا بیٹا سلامت گھر لوٹے گا کہ نہیں ،راستے میں کوئی غیر مقامی شخص أسے گاڑی سے اتار کر گھسیٹتا ہوا زندان میں لے جا کر لاپتہ کر دے گا کہ نہیں نہیں ہرگز نہیں کیونکہ وہ بلوچستان تو نہیں ہے نہ بھائی۔
بلوچستان جو دنیا کے کسی کونے میں موجود ایک ایسی دھرتی ہے جہاں صبح ہونے سے پہلے ہی لوگ سڑکوں پر موجود ہوتے ہیں شاھد کوئی سوچے کہ یہ لوگ بھی باقی دنیا کے لوگوں کی طرح اپنے روزمرہ کے کام کی وجہ سے سڑکوں پر موجود ہے مگر ذرا جلدی، لیکن آپ کو یہ سوچ کر حیرانی ہوگی کہ یہ لوگ کسی روزگار کے واسطے سڑکوں پر نہیں ہیں بلکہ اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے دن رات سڑکوں پر احتجاج کرتے رہتے ہیں ۔وہ پیارے جو کسی کا بھائی کسی کا بیٹا تو کسی کا والد بھی ہوسکتا ہے جو کئی سالوں سے لاپتہ کر دیئے گئے ہیں جن کا انتظار آج تک بھی أن کے پیارے کرتے رہتے ہیں اور کئی مائیں اپنے بیٹوں کے آخری دیدار کیلئے ترس ترس کر دم توڑ دیتی ہیں ۔
جی ہاں آپ نے بالکل صیح سنا ہے یہی وہ بلوچستان ہے جہاں اگر صبح کو بیٹا گھر سے نکلے تو وہ چند خوش قسمت مائیں ہونگی جو شام کو اپنے بیٹوں کا دیدار کرسکتی ہونگی۔۔۔کیونکہ بلوچستان ہی وہ جگہ ہے بلوچستان میں جہاں کسی بندے کو اٹھانا،مار کر کسی ویرانے میں پھینک دینا تو ایک روایت سی بن گئی ہے ۔
بلوچستان وہ زمین ہے جہاں کوئی بیٹا اپنے والد کے لئے،کوئی بہن اپنے بھائی کے لیے تو کوئی ماں اپنی لخت جگر کیلئے دن رات سڑکوں پر ایک دھندلی سی تصویر کے ساتھ بے یار و مددگار أن حکمرانوں کے سامنے فریادیں کرتی رہتی ہیں جو چار پیسے کیلئے اپنا ضمیر تک بھیج دیتے ہیں۔اور رہی بات پاکستانی میڈیا کی تو یہ وہ میڈیا ہے جو کسی مظلوم کی آواز کو اٹھانے کے بجائے مزید اس کو دبادیتی ہے جن کی آواز باقی دنیا تو دور اسی ملک کے باقی شہروں تک نہیں پہنچتی تو بالآخر یہ کریں تو کریں کیا ،جائیں تو کدھر جائیں ۔اگر یہ کسی سڑک یا چوراہے پر بیٹھ کر احتجاج کرنا شروع کردیں تو فوراً پولیس اور دیگر ریاستی ادارے آکر ان معصوم بچوں ،عورتوں اور بوڑھوں کو لاٹھی چارج کرنے کے بعد گرفتار کردیتے ہیں۔
عجیب بات ہے کہ دنیا میں ایک ایسا بھی ملک ہے جہاں اگر کوئی بندہ غائب ہو جائے اور أسے ڈھونڈنے کوئی أس کا دوسرا پیارا نکلے تو أسے بھی غائب کردیا جاتا ہے ۔
جس کی واضح مثال مشکے آواران سے تعلق رکھنے والا 11سالہ علی حیدر جو 2014 میں دنیا کے سب سے بڑے لانگ مارچ میں شامل ہوکر اسلام آباد پہنچے تھے.تاکہ وہاں وہ اپنے لاپتہ والد محمد رمضان بلوچ کی بازیابی کیلئے اپنی آواز ایوانوں میں بیٹھے أن حکمرانوں اور جرنیلوں تک پہنچائے جن تک سلگتے بلوچستان کی چینخیں کبھی بھی پہنچ نہیں سکتی۔
گیارہ سالہ بیٹا اپنے والد کو بازیاب کرنے کی نیت سے آیا تھا لیکن کچھ سالوں بعد وہ خود ایک تصویر بن گیا تھا کیونکہ اس معصوم بچے کو پاکستانی خفیہ اداروں نے لاپتہ کردیا جو اپنے بھائیوں اور بہنوں میں سب سے بڑا تھا۔علی حیدر کو بالآخر بازیاب کردیا گیا لیکن رمضان بلوچ تا حال لاپتہ۔
بلوچ وہ قوم ہے جہاں کی بہنیں بھی اپنے بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہتی ہیں تو اب کیسے علی حیدر کی چھوٹی بہن خاموش رہتی تو وہ بھی اپنے لاپتہ والد کی تصویر لئے آج 2024ع کو ایک بار پھر بلوچ لاپتہ افراد کے ہونے والی لانگ مارچ میں شامل ہوکر اسلام آباد پہنچی ہے۔
ویسے پاکستان میں تو کشمیر اور فلسطین کے نعرے بڑے جوش و جذبے سے لگائے جاتے ہیں اور ایوانوں میں بیٹھے کٹھ پتلی حکمران لمبی لمبی تقریریں کرتے ہیں۔ان حکمرانوں کو نہیں پتہ کہ اسرائیل جتنا ظلم فلسطین پر نہیں کررہا جتنا پاکستان میں کررہا ہے لیکن وہ ان کی نظروں سے اوجھل ہے۔
جہاں آئے روز بلوچوں کی نسل کشی کی جارہی ہے ،لوگوں کو اغوا کیا جارہا ہے،ٹارگٹ کلنگز ہورہی ہیں،چادر و چار دیواری پامال کی جارہی ہیں۔لیکن اس کے باوجود نہ پاکستانیوں کو اپنے ہی ریاست کا یہ وحشیانہ چہرہ دیکھائی دیتا ہے اور نہ ہی باقی دنیا کے جو انسانی حقوق کے اداروں کو سب کچھ دکھائی دیتا ہے۔
چند ایک لوگ ہے جو اس معاملے میں سیریس تو دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کے پاس نہ اختیار موجود ہے اور نہ ہی اقتدار کہ وہ جبری گمشدگی کے مسلئے کو حل کرانے میں کردار ادا کرسکیں تو اس وجہ سے یہ مسئلہ کئی دہائیوں سے حل ہونے کا نام نہیں لے رہا بلکہ اور گھمبیر ہوتا جارہا ہے۔
دنیا کی تاریخ رہی ہے کہ جن جن ملکوں میں مظلوم اقوام کے ساتھ ظلم و ستم ،زیادتی اور غلامانہ رویہ اپنایا گیا وہاں کے عوام نے بغاوت کا راستہ اختیار کیا اور ظالموں کے سامنے سر جھکانے کے بجائے کٹانے کو ترجیح دی۔
بلوچ قوم کی مثال ان مظلوم اقوام کی طرح ہے جو ظالم ریاستوں کے ظلم و ستم سہہ رہے ہیں۔ جس طرح مظلوموں نے جابر کے خلاف مزاحمت کا راستہ چنا اسی طرح بلوچ قوم بھی روز اول سے لیکر آج تک ریاست کے مظالم کے سامنے بہادری و جرات سے مقابلہ کررہے ہیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔