فیکٹ چیک: پاکستان میں سب سے کم جبری گمشدگیوں کا دعویٰ، حقائق کیا بتاتے ہیں

345

پاکستان کے سابق نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی جب نگراں وفاقی وزیر داخلہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے تو انہوں نے بارہا جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے متعلق مختلف دعوے کیئے۔

سرفراز بگٹی نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں لاپتہ افراد کی تعداد جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے اور انہوں نے اس دعوے کو اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے جبری گمشدگیوں کی رپورٹ سے منسوب کیا۔

یکم دسمبر کو پاکستان کے معروف ڈان نیوز کی جانب سے کئے گئے انٹرویو میں اس وقت کے عبوری وزیر داخلہ سرفراز احمد بگٹی سے پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے متعلق پوچھا گیا۔

سرفراز بگٹی نے دعویٰ کیا کہ ”لاپتہ افراد کی تعداد میں بہت مبالغہ ہے، حکومت نے جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن تشکیل دیا ہے جس نے 86-87 فیصد کیسز حل کئے ہیں جو کہ ایک بڑی بات ہے۔“

اس کے بعد انہوں نے مزید کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک ”ریجنل مسئلہ“ ہے۔

”جبری گمشدگیاں صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے، یہ ایک علاقائی مسئلہ ہے۔ جب ہم شرح کی بات کرتے ہیں تو ریجن میں جتنے ممالک ہیں ان میں سب سے کم شرح پاکستان کا ہے، یہ میں نہیں کہہ رہا یہ اقوام متحدہ نے دستاویز شائع کیا ہے اور وہ دستاویز یہ کہتا ہے کہ ہماری جو تعداد ہے وہ ریجن کے ممالک سے کم ہے۔“

حقائق:

اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ آن انفورسڈ یا ان ولنٹری ڈس اپیرنسز (WGEID) نے ایسی کوئی رپورٹ شائع نہیں کی ہے جس میں کہا گیا ہو کہ جنوبی ایشیا کے خطے میں جبری گمشدگیوں کی سب سے کم تعداد پاکستان میں ہے۔

سوئٹزرلینڈ میں WGEID سیکرٹریٹ سے پول پلاناس کالیکو (Pol Planas Callicó) نے جیو فیکٹ چیک کو جبری گمشدگیوں کی تعداد کا تعین کرنے کے لیے WGEID کی تقریباً 100 ممالک سے جبری یا غیر ارادی طور پر گمشدگیوں کے بارے میں سالانہ اور سہ ماہی رپورٹس کا حوالہ دیا۔

پول پلاناس کالیکو نے وضاحت کی کہ چونکہ ستمبر 2023ء میں ہونے والی میٹنگ کے بعد کی رپورٹ ابھی تیار کی جا رہی ہے اس لیے اگست2023ء میں شائع ہونے والی سالانہ رپورٹ سے گروپ کی طرف سے جانچے گئے کیسز کے تازہ ترین ڈیٹا کےلئے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

سالانہ رپورٹ کے مطابق، WGEIDنے 1980ء سے اگست 2023ء کے درمیان جنوبی ایشیا میں جبری گمشدگیوں کے سب سے زیادہ کیسز (12,855) سری لنکا کی حکومت کو منتقل کیے۔

دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ تعداد پاکستان سے (1,635) تھی۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ورکنگ گروپ پاکستان میں”رپورٹنگ مدت کے دوران منتقل ہونے والے تصدیق شدہ کیسوں کی بڑی تعداد“ جبری گمشدگیوں کے ”متواتر اور متعدد“ الزامات پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔

اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گروپ نے پاکستانی حکومت کو 2012ء میں اپنے آخری دورے کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے کی متعدد درخواستیں بھیجی ہیں لیکن آج تک ان کا کوئی جواب نہیں ملا۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ 2023ء کی سالانہ رپورٹ میں مختلف خاندانوں اور ان کے نمائندوں کی جانب سے ورکنگ گروپ کو جمع کرائے گئے کیسز کو جمع کیا گیا ہے جو بعد میں ان ممالک کو منتقل کیے گئے۔ اس میں درج ممالک میں مبینہ طور پر جبری گمشدگیوں کے موجودہ معاملات کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے۔

تاہم بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کی تعداد پچاس ہزار کے قریب ہے۔ اور یہ سلسلہ جاری ہے جہاں لوگوں کو لاپتہ کیا جاتا ہے جن میں کچھ کئی سالوں بعد منظر عام پر لائے جاتے ہیں اور کئی مسخ شدہ لاشیں اور جعلی مقابلوں میں مارے جاتے ہیں۔

تنطیم کے مطابق بیشتر علاقوں میں لواحقین کیسز کو درج نہیں کراتے انہیں ڈرایا جاتا ہے کہ اگر انہوں لاپتہ فرد کا کیسز درج کرایا تھا تو اسے مار دیا جائے گا۔

تنظیم کا مزید کہنا ہے کہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو بنیادی دستاویزات، مواصلات و شہروں تک رسائی میں مشکلات کے باعث بھی ان کیسز کی ایک بڑی تعداد رپورٹ نہیں ہوتی ہے۔