بلوچ مظاہرین سے اظہار یکجتی، کراچی اور کوئٹہ میں ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے

435

اتوار کے روز بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور کراچی ملیر میں عوام کی بڑی تعداد نے سڑکوں پر نکل کر اسلام آباد میں بلوچ مظاہرین سے اظہار یکجتی کا اظہار کیا۔ مظاہروں میں خواتین کی بڑی تعداد شریک تھی۔ جنہوں نے پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری لاپتہ بلوچ افراد کی تصویریں اٹھائی تھی۔

مظاہرین نے بلوچ نسل کشی اور جبری گمشدگیوں کے خلاف نعرے بازی کیا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق تحریک کے تیسرے فیز میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، آج کوئٹہ اور کراچی میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئی۔ ہزاروں افراد نے ان دو شہروں میں ہونے والے احتجاج میں شرکت کی۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے سے ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی جو بلوچستان یونیورسٹی سے ہوتے ہوئے موسیٰ کالونی اور پھر وہاں سے بشیر چوک قمبرانی روڈ میں اختتام پذیر ہوا۔

جبکہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے آج ہونے والا دوسرا احتجاجی ریلی کراچی کے علاقے ملیر شرافی گوٹھ میں نکالی گئی جو شرافی گوٹھ سے ہوتا ہوا شاہ علی گوٹھ میں اختتام پذیر ہوا۔

ان دونوں احتجاجی ریلیوں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی تھی جس میں جبری گمشدگی کے شکار اور ماورائے عدالت قتل کیے گئے افراد کے لواحقین بھی شامل تھے۔ مظاہرین کے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ تھے جس میں بلوچ نسل کشی اور ریاستی جبر کے خلاف اور اسلام آباد دھرنے کے حمایت میں نعرے درج تھے۔

دونوں شہروں میں ہونے والے احتجاج میں مظاہرین نے ریاست سے مطالبہ کیا کہ بلوچ نسل کشی اور ریاستی جبر کو فوری طور پر بند کیا جائے اور اسلام آباد میں ہونے والے دھرنے کو ختم کرنے کے لیے طاقت کا استعمال فوری طور پر بند کیے جائے اور دھرنے کے مطالبات فوری طور پر تسلیم کیے جائے۔

کوئٹہ میں احتجاجی ریلی کے دوران دستخطی مہم کا بھی انعقاد کیا گیا جہاں عوام نے ریاستی جبر کے خلاف لانگ مارچ کے حق میں دستخط کئے۔

اس تسلسل کو جاری رکھتے ہوئے کل کیچ میں احتجاجی ریلی نکالی جائے گی۔

انہوں نے کہاکہ ریاست کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ بلوچستان میں ڈیٹھ اسکواڈ کے خلاف ہزاروں لوگ سراپا احتجاج ہیں اور ریاست نے ڈیتھ اسکواڈ کا خاتمہ کرنے کے بجائے انہیں اسلام آباد میں بلا کر بلوچ مظاہرین کو ہراساں کرنے کی سازشیں رچائی جارہی ہیں ۔