بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ انتہائی گھمبیر شکل اختیار کرچکا ہے۔ ماما قدیر بلوچ

232

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 5284 ویں روز جاری رہا۔

اس موقع پر پنجگور سے سیاسی سماجی کارکنان شبیر احمد بلوچ، داد محمد بلوچ، زبیر احمد بلوچ، اور دیگر مکتبہ فکر کے لوگوں نے اظہار یکجہتی کی ۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا مسئلہ انتہائی گھمبیر شکل اختیار کرچکا ہے اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری و ساری ہے، ہزاروں بلوچ ابھی تک قابض کے عقوبت خانوں میں قید ہیں اب تک جبری گمشدہ افراد کی بازیابی میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بھی قبضہ گیر کی ایماں پر جبری گمشدہ افراد کے تسلی دے رہے ہیں یا پر سپریم کورٹ خود ان بااثر اداروں کے سامنے بےبس ہے دونوں صورتوں میں جبری لاپتہ افراد کے مسئلے میں بہتری کی کوئی امید نہیں ہے۔ سپریم کورٹ جبری لاپتہ افراد کی بازیابی میں وارننگ کی حد تک محدود ہے حالانکہ کورٹ نے سی ٹی ڈی، ایف سی کو مدت دی تھی کہ وہ اتنے دنوں میں جبری لاپتہ افراد کو پیش کرے لیکن خفیہ ایجنسیاں اور ایف سی کورٹ کی وارننگ کی کوئی پرواہ کئے بغیر مزید افراد کو اغوا کرکے مسخ شدہ لاشیں پھینکتے رہے۔ بلوچستان میں بھی خفیہ اداروں کی جانب سے ظلم کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اس بارے میں پولیس نے ان گمشدگیوں میں خفیہ ایجنسیوں اور ایف سی کے ملوث ہونے کے ثبوت کی شکل میں عدالت میں پیش کی ہیں لیکن قابض کی فوج اور ایجنسیوں نے کسی چیز کو خاطر میں لائے بغیر بلوچستان میں ننگی جارحیت جاری رکھی ہوئی ہے جبکہ پاکستان کی مرکزی حکومت بھی مسئلے پر بار بار اپنے بیانات تبدیل کرتی چلی آ رہی ہے۔