جیت ہماری ہوگی – ظہیر بلوچ

305

جیت ہماری ہوگی

تحریر: ظہیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

انسان کی زندگی میں خوف ایک ایسے عنصر کا نام ہے جو انسان کو کبھی زندگی کے حسین لمحات سے روشناس ہونے اور ان سے لطف اٹھانے سے محروم کرتی ہے۔ خوف نہ صرف انسان میں پایا جاتا ہے بلکہ انسانی جسم سے مسافت طے کرکے خوف نامی جن اداروں اور محکموں کو بھی تباہی کے دہانے پر پہنچاتی ہے۔

دنیا میں کہیں ریاستیں ناکامی کا شکار ہوئی اور ان کی تباہی میں کئی عوامل قابل ذکر ہے لیکن خوف نامی جن نے بھی ان کی تباہی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

دور جانے کی ضرورت نہیں، ہم اپنے ملک بلوچستان میں ہی نوآبادیاتی نظام کی بنیاد رکھنے والے پاکستان کو دیکھیں جب 70 کی دہائی میں بنگالی قوم کے شعور، جدوجہد اور اپنی قومی زبان کی محبت نے ان کے دل و دماغ میں ایک ایسے خوف کو جنم دیا جس کا نتیجہ پاکستان کی تباہی پر منتج ہوا اور بنگالی قوم نے اس خوف کو شکست دیکر ایک نئے ریاست کی بنیاد ڈالی اور آج قبضہ گیر ریاست سے ترقی یافتہ ریاست بن گئی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ انسان غلطیوں کا پتلا ہے اور کوئی بھی انسان غلطیوں سے مبرا نہیں ہوسکتا اور اپنی زندگی میں غلطیاں کرکے انہیں سدھارنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ اسی طرح ریاست بھی انسانی مجموعے کا نام ہے جس سے غلطیاں ہوتی ہے اور وہ ان سے سیکھ کر اپنے ریاست کو مضبوط بناتی ہے لیکن غیر فطری ریاستیں جو کسی بھی حجم میں ریاستوں کے معیار پر پورا نہیں اترتی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر دنیا کے نقشے سے غائب ہوجاتی ہے۔ ایسی کئی ریاستیں قدیم دور میں موجود رہی ہے اور آج بھی پاکستان کی شکل میں ایک ایسی غیر فطری ریاست دنیا میں وجود رکھتا ہے جو اپنی غلطیوں سے سیکھنے کے بجائے ان کو دہرا کر خود کو دلدل میں دھکیل رہی ہے جہاں سے نکلنا پاکستان کے لئے ناممکن بنتا جارہا ہے۔

جو خوف پاکستان کو بنگالیوں سے لاحق تھا آج وہی خوف بلوچ قوم کی شکل میں پاکستان کے بنیادوں کو ہلا چکی ہے اور اسی خوف کی وجہ سے پاکستان بربریت، ظلم و جبر کے ذریعے اپنے خوف کو بلوچ قوم میں منتقل کرنے کی کوششوں کو تقویت فراہم کررہی ہے لیکن پاکستان کے مقدر میں ناکامی کے سوا کچھ نہیں آرہا اور مستقبل میں یہ خوف پاکستان کو تباہ و برباد کردیں گا۔

آج سے چوبیس دن قبل بلوچستان کے ضلع تربت میں بالاچ ولد مولا بخش کی سی ٹی ڈی کے ہاتھوں جعلی مقابلے میں شہادت کے خلاف شہید فدا چوک پر احتجاجی دھرنا دیا گیا جہاں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کرکے اس احتجاج کو ایک سیاسی و انسانی تحریک کی شکل میں ڈھال کر ریاست کو خوف میں مبتلا کردیا اور اس خوف کی وجہ سے ریاست نے شہید بالاچ بلوچ کی ہمشیرہ کو حبس بے جا میں رکھنے کے علاوہ رقم دینے کی بھی بات کی لیکن ناکامی ان کا مقدر ٹہری۔ منظور پشتین کو تربت جلسے میں روکنا، ان پر فائرنگ کرنا اور ان کو گرفتار کرکے اسلام آباد منتقل کرکے سات دنوں کے جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرنا خوف کی علامت ہے جو بتارہی ہے کہ پاکستان دلدل میں گرچکا ہے اور جیت مظلوم اقوام کا ہی مقدر ہے۔

نو دن احتجاج میں بیٹھنے کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے تربت تا کوئٹہ لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا تو عوام کی شرکت نے ریاست کے خوف کو مزید آشکار کیا جس کا اظہار لانگ مارچ کو مختلف طریقوں سے روکنے کی کوششوں سے دیکھا جاسکتا ہے لیکن ہر دفعہ ریاست ناکام نظر آئی اور مزاحمت کی جیت ہوئی۔

جب لانگ مارچ کوئٹہ پہنچی، عوام کا استقبال، پشتونوں کا اظہار یکجہتی اور کوئٹہ شہر میں سیمینار اور شٹر ڈاؤن ہڑتال نے ریاست کے خوف کو ایسے بڑھاوا دیا کہ اس خوف کا اظہار ریاست نے لانگ مارچ کے شرکاء پر ایف آئی درج کرکے کی اور ان شرکاء پر دہشت گردی کا مقدمہ درج کردیا۔

بلوچ قوم جبری گمشدگی، اجتماعی قبروں، جعلی مقابلوں اور دیگر ریاستی ظلم و جبر کی وجہ سے خوف نامی پرندے کو اپنے وجود سے مٹا چکی ہے اور یہ ایف آئی آر اب بلوچ قوم کے قدموں میں لغزش نہیں آنے دے گی کیونکہ ریاستی ظلم و جبر سے جو خوف بلوچ کے ذہن میں پھیل چکا تھا وہ بلوچ قوم نے مستقل مزاج جدوجہد کی بدولت ریاست کے جسم میں پیوست کرچکا ہے جو زہر بن کر ریاست کے جسم کو تعفن زدہ بنا چکا ہے اور شکست خوردہ ریاست تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے جیت ہماری ہوگی کیونکہ جیت ہمیشہ مزاحمت کی ہوئی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔