مکران، مزاحمت کے آئینے میں
تحریر: عزیز سنگھور
دی بلوچستان پوسٹ
مکران جنگوں کی ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔ بیرونی حملہ آوروں سے مدمقابل ہونا مکران کے مزاحمت کاروں کی پہچان ہے۔ چاہے وہ پرتگیزی سامراج ہو یا برطانوی سب کو مکران نے منہ توڑ جواب دیاہے۔ مکران نے ہمیشہ اپنی قومی اجتماعیت کا مظاہرہ کیا۔ مکران کے سپوتوں نے اپنی سرزمین کو بچانے کے لئے شہادت کو ترجیحی دی۔ جس کی وجہ سے آج مکران کی بلوچی ثقافتی رومال ایک مزاحمت کی شناخت بن چکا ہے۔ رومال مکمل طور پر سیاہ اور اس کے کناروں پر سنہری ،سبز اور سرخ پٹیاں بنی ہوئی ہیں، سیاہ رنگ سوگ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جبکہ سنہری رنگ کا مطلب کامیابی اور فتح کے ہیں یہ شفقت، محبت اور تحفظ کی علامت بھی سمجھا جاتا ہے۔ جس کے معنی آزاد مملکت بھی ہیں۔ سبز عموماً اسلامی ملکوں کی نشانی کے طور پر یا مسلمانوں کی پہچان کا رنگ ہے اور سرخ شہدا یا قربانیوں کی علامت ہے۔ کسی زمانے میں یہ رومال صرف مرد اپنے کندھے پر رکھتے تھے۔ اب یہ رومال بلوچ خواتین کا دوپٹہ بھی ہے۔ یہ ایک ارتقائی عمل ہے۔ مردوں کے ثقافتی ڈریس کو عورت اپنا رہی ہیں۔ کیونکہ آج مردوں کی طرح بلوچ خواتین بھی مزاحمت کا راستہ چن رہی ہیں۔
سولہویں صدی میں پرتگیزی سامراج نے بلوچستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو انہیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پرتگیزیوں نے بلوچستان کے ساحلی علاقے مکران پر قبضے کے لئے حملہ کیا۔ پرتگیزی اتنے طاقتور تھے کہ وہ جنوبی امریکا، افریقا، ہندوستان اور جنوب مشرقی ایشیاء پر قابض ہوگئے تھے۔ جہاں انہیں کوئی خاص مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ پرتگیزی جب بلوچستان کے ساحل پر حملہ آور ہوئے تو میرھمل کلمتی نے اس حملے کو پسپا کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مکران کے حکمران ہوت بلوچ ہوتے تھے۔ ان کا ہیڈکوارٹر کیچ ہوتا تھا۔ تاہم میر ھمل کلمتی نے پرتگیز ی حملہ آوروں سے مکران کو بچانے کے لئے ہیڈ کوارٹر ساحلی بستی کلمت منتقل کردیا۔ جب ہوت کلمت آئے تو انہوں نے اپنے نام کے سامنے علاقے کا لقب لگانا شروع کردیا۔ اس طرح وہ کلمتی کہلانے لگے۔ ہوت بلوچوں نے پرتگیز سامراج سے کراچی کے ساحلی علاقوں کو برطانوی سامراج سے بھی بچانے کی کوشیش کی۔ مزاحمت کرنے کے جرم میں انگریز فوج نے میر نوتک کلمتی کو پھانسی دیدی۔
ہوت کی مختلف ذیلی شاخیں ہیں۔ جن میں جت، زرداری، کلمتی، تالپور اور دیگر شامل ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بلوچ قوم میں دو نسل کے ہوت ہوتے ہیں۔ ایک نسل میر جلال خان کی اولادمیں سے ہیں جبکہ دوسری نسل جدگال بلوچ قبائل ہیںَ۔ بعض کا کہنا ہے کہ میر ھمل کلمتی کا تعلق جدگال ہوت سے تھا۔ اور اسی طرح کیچ کے حکمران خاندان سے تعلق رکھنے والے پنوں کا تعلق بھی جدگال نسل سے تھا۔ تاہم کچھ مورخین اس کی نفی بھی کرتے ہیں۔ جدگال بھی بلوچوں میں ایک بڑا قبیلہ ہے۔ جو مغربی بلوچستان (ایرانی بلوچستان) سے شروع ہوکر مشرقی بلوچستان (پاکستانی بلوچستان) سندھ کے کراچی، حیدرآباد، جامشورو، بدین، ٹھٹھہ اور دیگر علاقوں میں آباد ہیں۔جن میں جاموٹ، گونگو، برفت، صابرو، مطاہر، واڈیلہ، ہملانی، رونجو، انگاریہ، بھوتانی، پالاری، ہوت، گدور، ساسولی، بامری، سراج زئی، جعفرانی، منگیاڑی، جام، لاسی اور دیگر شامل ہیں۔ آج بھی مکران کی ساحلی پٹی پر جدگال بلوچوں کی للکار گونج رہی ہے۔ان میں حق دو تحریک کے سرکردہ رہنما، مولانا ہدایت الرحمان بلوچ، حسین واڈیلہ، میر نوید کلمتی سمیت دیگر شامل ہیں۔
نوید کلمتی کے والد جان محمد، صابرو پُژ تھے۔ ان کی واجہ میر مراد جان سنگھور سے خاندانی مراسم تھے۔ میر نوید کلمتی کی والدہ محترمہ میر رحمت کلمتی کی صاحبزادی ہیں۔ اسی طرح مولانا ہدایت الرحمان بلوچ مطاہر جدگالوں سے رشتہ داری کرتے ہیں۔ ان کے رشتہ داروں کی بڑی تعداد کراچی کے علاقے نوکیں لین لیاری میں آباد ہیں۔ حسین واڈیلہ میرے سینئر ساتھیوں میں ہوتے تھے۔ وہ کراچی میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سندھ کے سرکردہ رہنماؤں میں شامل تھے۔ وہ ایک سچے بلوچ قوم پرست ہیں۔ کسی زمانے میں ضلع کیچ ڈیتھ اسکواڈ کا گڑھ تھا۔ ان کے کارندے گھروں میں بھی چوری کی وارداتیں کیاکرتے تھے۔ ایک واردات کے دوران کیچ کے علاقے ڈَنُک میں ملک ناز بلوچ کی شہادت ہوئی تو کامریڈ حسین واڈیلہ گوادر میں اس قتل کے خلاف آواز اٹھاتے رہے۔ اور یہ آواز نہ صرف بلوچستان بلکہ سندھ اور ڈیرہ جات تک جا پہنچی ہے۔ بلاآخر قاتل گرفتار ہوگئے۔
مغربی بلوچستان میں جدگالوں کی طوطی بولتا ہے۔ کسی زمانے میں دشتیار سے لیکر سندھ کے شہر کوٹری جامشورو تک جدگال ریاست تھی۔ مائی چاہ گلی نامی ایک بلوچ خاتون ریاست کی سربراہ ہوتی تھی۔ جامشورو میں واقع رنی کوٹ کو برفت بلوچوں نے تعمیر کیا۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے مزاحمت پسند رہنما ڈاکٹر شفیع برفت بھی نسلاً بلوچ ہیں۔ ان کا تعلق بھی جامشورو ضلع سے ہے۔ حال ہی میں شفیع برفت نے موجودہ صوبہ بلوچستان کے بعض علاقوں کو تاریخی طورپر سندھ کا حصہ قراردیا تھا۔ اس انٹرویو سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں سندھ اور بلوچستان کی تاریخ، جغرافیہ اور ثقافت سے نابلدی ہے۔ موجودہ دور میں بلوچ نے کبھی سندھی قومی کاز کے خلاف بات نہیں کی بلکہ ان کے شانہ بشانہ ساتھ دیا اور آج بھی دے رہے ہیں۔ حالانکہ کراچی بلوچستان کا حصہ تھا۔ اسی طرح جب انگریز سامراج نے برصغیر پر قبضہ کیا تو اس زمانے میں موجودہ صوبہ سندھ میں پانچ بلوچ ریاستیں قائم تھیں۔ جن میں ریاست حیدرآباد، ریاست میرپور خاص، ریاست خیرپور، ریاست ٹنڈو محمد خان اور چانڈکا ریاست شامل تھے۔ چانڈکا ریاست، موجودہ لاڑکانہ ہے۔ جہاں چانڈیو بلوچ حکمران تھے۔ چانڈیو بلوچ رند قبیلہ کی ذیلی شاخ ہیں۔ جبکہ حیدرآباد، میرپورخاص ، ٹنڈو محمد خان اور خیرپور ریاستوں کے حکمران ٹالپر یا تالپور بلوچ تھے۔ تالپوروں نے انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی۔ بلوچوں نے مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کا نعرہ بلند کیا ہوا تھا۔ تاہم شکست کے بعد ان کی ریاستیں ختم کردی گئیں۔ ان ریاستوں کی بنیاد پر موجودہ صوبہ سندھ بن گیا۔ سندھ دھرتی کے دفاع میں بلوچوں کا خون شامل ہے۔ سندھ دھرتی بھی بلوچوں کو اپنی سرزمین کی طرح عزیز ہے۔
بلوچوں کی تاریخ تقریبا ہزاروں سال پرانی ہے۔ جس کی گواہی دریائے بولان سے جنم لینے والی مہرگڑھ کی تہذیب دیتی ہے۔ مہر گڑھ کے علاوہ بلوچ کی ریاستیں بھی قدیم تاریخ رکھتی ہیں۔ صرف موجودہ صوبہ بلوچستان میں چار ریاستیں قائم تھیں۔ جن میں ریاست خاران، ریاست مکران، ریاست لسبیلہ اور ریاست قلات شامل تھیں۔ ریاست قلات ایک طاقتور ریاست تھی۔ ان ریاستوں کی آپس کی چپلقس کے خاتمے نے انہیں ایک ” بلوچ کنفیڈریشن“ کا تصور دیا۔ اس بلوچ کنفیڈریشن کا سرچشمہ قلات تھا۔ جہاں سے ان ریاستوں کی ڈوریاں ہلتی تھیں۔ جب بھی بیرونی طاقت ان ریاستوں پر حملے کرنے آتی تھی تو یہ ریاستیں یکجا ہوتی تھی۔ جس کی مثال کچھ یوں ہے۔ اٹھارویں صدی میں مکران پر انگریزوں نے حملہ کردیا اور مکران کے ساحلی علاقوں پسنی اور دیگر ساحلی پٹی پر انگریز فوج نے قبضہ کرلیا۔ برطانوی کپتان رابرٹ سنڈیمن اپنی فوج کی قیادت کررہے تھے۔ اس جارحیت کے خلاف ریاست خاران کے نواب خاندان سے تعلق رکھنے والے بلوچ خان نوشیروانی نے ریاست مکران کے نواب محراب گچکی کا ساتھ دیا۔ بلوچ خان نوشیروانی نے مکران سے تعلق رکھنے والے دیگر جنگجووں کے ہمراہ انگریز فوج کا مقابلہ کیا۔ انگریز فوج اور بلوچ مزاحمت کاروں کی پسنی اور تربت کے درمیانی علاقے ”گوک پروش“ کے مقام پر دو بدو جنگ ہوئی ۔ اس لڑائی میں میر بلوچ خان شیروانی نےاپنے ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش کیا۔ آج بھی ”گوک پروش“ کے مقام سے ہر گزرنے والے بلوچ کی آنکھ پرنم ہوجاتی ہے۔ اورکچھ وقت کے لئے خاموشی اختیارکرلیتا ہے۔ اور وہ سوگواری کی کیفیت میں چلے جاتے ہیں۔ شاید یہ بلوچ کی کیفیت جو اپنے شہیدوں کی شہادت کو فراموش نہیں کرتے ہیں۔
مکران نے بے شمار سپوت پیدا کئے۔ جن میں شہید ملک دینار گچکی، ملک ابوسعید بلیدی، داد کریم ہوت، میر کنہر سنگھور، محمد رحیم ہوت، مولوی عبدالحق بلوچ، قاضی مبارک، جی آر ملا، عطا شاد، غلام محمد بلوچ، شیرمحمد بلوچ، لالہ منیر بلوچ، بانک کریمہ، بانک شاری، چاکر جوش، شہید بالاچ بلوچ، شہید حیات بلوچ سمیت دیگر سینکڑوں شخصیات شامل ہیں۔
مکران میں یہ کارروان آج بھی رواں دواں ہے پادا بلوچ! پادا بلوچ! کے نعرے گونج رہے ہیں۔ یہ کارروان لانگ مارچ کی شکل میں کیچ سے کوئٹہ کی جانب روا دواں ہیں۔ یہ کارروان ایک آگاہی و علم کا کارروان ہے۔ یہ کارروان بلوچ کی آواز ہے۔ یہ کارروان لاپتہ افراد کی بازیابی کا کارروان ہے۔ یہ کاروان فیک انکاؤنٹر کے خلاف ایک عوامی مینڈیٹ ہے۔ کارروان کی قیادت اسلامی اسکالر، ادیب و دانشور مولوی عبدالحق بلوچ کے صاحبزادے اور عالم دین واجہ صبغت اللہ بلوچ، جبری گمشدگی کے شکار بلوچ رہنما ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی اور وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کی سیکریٹری جنرل سمی دین بلوچ، بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی سابق چیئرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، لاپتہ طالبعلم رہنما شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ، بلوچ وومن فورم کی سربراہ ڈاکٹر شلی بلوچ، تربت سول سوسائٹی کے کنونیر گلزار دوست اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے سرکردہ رہنما لالہ وہاب بلوچ کررہے ہیں۔ وہ بلوچ سماج میں بھائی چارگی کی فضا ، آپس میں ہم آہنگی، بلوچ اجتماعیت کی مضبوطی کے لئے ایک نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔ تاریخ انہیں کبھی بھی فراموش نہیں کریگی۔ ان کا نہ ختم ہونے والا کردار تاریخ کے صفحوں میں لکھا جائیگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔