بلوچستان میں جبری گمشدگیاں و جعلی مقابلوں کے بھڑتے واقعات: کراچی میں مظاہرہ

185

پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگیوں میں اضافے اور جعلی مقابلوں میں لاپتہ افراد کو قتل کرنے کے خلاف اتوار کے روز بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے زیراہتمام مظاہرہ کیا گی۔

حتجاج میں لاپتہ افراد کے لواحقین، سیاسی تنظیموں کے ارکان سمیت طلباء شریک ہوئے اور لاپتہ افراد کی بازیابی سمیت بلوچستان میں “سی ٹی ڈی “ کی جانب سے جعلی مقابلوں میں لاپتہ افراد کو قتل کرنے کے واقعات کے خاتمے کا مطالبہ کیا-

بلوچستان میں حالیہ دنوں متعدد لاپتہ افراد کو پاکستانی فورسز کی جانب سے جعلی مقابلوں میں قتل کرنے کے واقعات سامنے آئے ہیں جس کے خلاف گذشتہ روز کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی قیادت میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا تھا-

مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے مسلسل بھڑتے واقعات اور ان لاپتہ افراد کی جعلی پولیس مقابلوں قتل کے واقعات کو روک کر کے انھیں فوری طور پر بازیاب کیا جائے-

کراچی احتجاجی ریلی میں بلوچستان سے جبری لاپتہ افراد کے لواحقین بھی شریک ہوئے جنکا کہنا تھا سالوں سے لاپتہ پیاروں کے واپسی کی منتظر ہے جب بھی کسی جعلی مقابلے کا سنتے ہیں تو یہی لگتا ہے ہمارا اپنا کوئی پیارا ہوگا البتہ وہی ہوتا ہے کسی لاپتہ نوجوان کو قتل کردیا جاتا ہے اور ےہ سلسلہ مزید بڑ رہا ہے-

احتجاج میں شریک بی ایس او آزاد کے جبری لاپتہ رہنماء شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیماء بلوچ نے کہا ‏ہم زندہ ہونے کے ڈھونگ میں ایک جنگ لڑ رہے ہیں کہ شاید انہیں زندہ لے آئیں جو زندہ ہماری آنکھوں کے سامنے گھسیٹتے ہوئے اٹھائے گئے تھے زندہ اٹھا کر مسخ شدہ لاش پھینکنا اور بنا عدالتی بیان اور بنا ثبوت کے اس لاش پر مسلح ہونے کا الزام دینا، کہاں کا انصاف ہے-

مقررین کا کہنا تھا لاپتہ افراد کو فیک انکاؤنٹر میں مارنا ریاستی اداروں کا پرانا ہتھکنڈہ ہے جس کو ریاست نے متعدد بار استعمال کرکے لاپتہ افراد کو فیک انکاؤنٹر میں مار دیا ہے۔ جن لاپتہ افراد کو فیک انکاؤنٹر میں مارا گیا ان کے نام بلوچ لاپتہ افراد کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پاس درج تھے-

انہوں نے مزید کہا حالیہ دنوں ‏خضدار میں سی ٹی ڈی نے جن تین افراد کو مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا ان میں سے ایک کی شناخت آفتاب سمالانی کےنام سے ہوئی جہنیں رواں سال 11 اگست کو ہزار گنجی کوئٹہ سےفورسز نے جبری لاپتہ کیا تھا جن کی جبری گمشدگی کی اطلاع انکے لواحقین نے پہلے ہی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے پاس جمع کرائی اور تنظیم نے لاپتہ افراد کے حوالے سے بنائی گئی کمیشن کو فراہم بھی کیا گیا تھا اس کے ساتھ ہی خضدار مقابلے میں جاں بحق عبداللہ زہری بھی لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تھا۔

مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ بلوچستان میں جاری ریاستی کریک ڈاؤن کو اقوام متحدہ کے ذریعے پریشرائز کرکے ختم کیا جائے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کو فوری طور پر یقینی بنایا جائے-