استارِ آجوئی شہید فیصل بنگلزئی – مہروان بلوچ

308

استارِ آجوئی شہید فیصل بنگلزئی

تحریر: مہروان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ قوم میں ہمیشہ سے ہی مزاحمت کی رجحان رہا ہے،اسی سبب مختلف ادوار میں مختلف نوآبادکاروں کے خلاف بلوچ اپنی آزادی کے لیے مزاحمت کرتی رہی ہے،نہ صرف مزاحمت بلکہ بڑی بڑی قربانیاں دے کر دشمن کو شکست سے دوچار کرتی رہی ہے۔

1839 کو انگریز جب دیگر بلوچ علاقوں سے ہوتے ہوئے بولان پونچتی ہے تو عام بلوچ اپنے جنگی اوزاروں کو اٹھا کے بغیر کسی سردار اور خان کی حکم کے دشمن سے برسرپیکار ہوتا ہے،اور ازاں بعد انگریز کی مقابلہ میں کم وسائل ہونے کی وجہ سے جام شہادت نوش کرتے ہیں لیکن اول دے سے فرنگیوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ برصغیر ہے جہاں مزاحمت کی کوہی رجحانات نہیں لیکن یہ بلوچستان ہے جہاں ہر بلوچ مرنے کو تیار ہے لیکن اپنے دھرتی کو غیروں کے ہاتھوں دینے تیار نہیں۔

بلوچستان میں مزاحمت اور شہادتوں کی قصہ بہت پرانی ہے فرنگی سے لیکر ابتک بلوچ کی اپنی آزادی کی خاطر شہادتوں کا سلسلہ بہت لمبی ہے،بلوچ اپنی قومی آزادی کی خاطر کم وسائل ہونے کی باوجود صدیوں سے مزاحمت کا رواج جاری رکھا ہے اور اپنی شناخت کی خاطر دشمن سے ہر لمحہ لڑ رہا ہے۔

بلوچستان قومی آزادی کی خاطر جام شہادت نوش کرنے والے سرمچاروں کی تعداد ہزاروں میں ہیں جو قومی آزادی اور نسلوں کی مستقبل کی خاطر اپنے تمام خواہشات کو پس پشت ڈال کر شہادت کی عظیم رتبہ پے فائز ہوئے۔

انہی سرمچاروں کی فہرست میں ایک نام شہید فیصل عرف جانگیر کی ہے جو کمسن اور خوشحال ہوتے ہوئے بھی قومی آزادی کی خاطر کھیل کود کی جگہ جنگ کو چنا اور آخری سانس تا لڑتا رہا۔

آج شہید فیصل جیسے سرمچاروں کی شہادت کی بدولت بلوچ قومی آزادی کی تحریک بلوچستان سمیت دنیا کی بیشتر ممالک میں شدت سے زیر بحث ہے،انہی محافظوں کی بدولت بلوچستان پوری دنیا میں ایک مزاحمت کی علامت بن چکی ہے۔

شہید فیصل جان کو دیگر بلوچ شہیدوں کی طرح غلامی کا احساس ہوتے ہی اپنے تمام تر خواہشات کو ترک کرنا پڑا اور پہاڑوں کو اپنا مسکن بنانا پڑا۔شہید فیصل نا صرف خود قومی غلامی کی خلاف مزاحمت کا راستہ اپنایا بلکہ اپنی دیگر خاندان والوں کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی قربانی دینے کے لیے تیار رہا،

شہید فیصل جان کا بھائی شہید نسیم بنگلزئی بھی بلوچ قوم کو غلامی سے چھٹکارہ دلانے کی خاطر پہاروڑ کو اپنا مسکن بنایا اور کہی سال مستقل مزاجی کے ساتھ برسرپیکار رہے کر آخری سانس تک دشمن سے لڑنے کے بعد جام شہادت نوش کی،شہید نسیم کے علاوہ شہید فیصل کا ابو کمانڈر سرفراز کہی سالوں سے نہ صرف دشمن سے لڑ رہا ہے بلکہ اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ بلوچ قومی جنگ کی رہنمائی کر رہا ہے۔

ہمیں اپنے تمام شہیدوں کی قربانیوں کی نا صرف قدر کرنی ہے بلکہ ہمیں انکی راہ اپنا کر انکی قومی آزادی کی خواب کو پوری کرنی ہے تاکہ انکی قربانیاں رائیگاں نا جائے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔